مسند احمد ۔ جلد دوم ۔ حدیث 66

عبداللہ بن عباس کی مرویات

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ يَعْنِي اسْتَأْذَنَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَلَى عَائِشَةَ فَلَمْ يَزَلْ بِهَا بَنُو أَخِيهَا قَالَتْ أَخَافُ أَنْ يُزَكِّيَنِي فَلَمَّا أَذِنَتْ لَهُ قَالَ مَا بَيْنَكِ وَبَيْنَ أَنْ تَلْقَيْ الْأَحِبَّةَ إِلَّا أَنْ يُفَارِقَ الرُّوحُ الْجَسَدَ كُنْتِ أَحَبَّ أَزْوَاجِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ وَلَمْ يَكُنْ يُحِبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا طَيِّبًا وَسَقَطَتْ قِلَادَتُكِ لَيْلَةَ الْأَبْوَاءِ فَنَزَلَتْ فِيكِ آيَاتٌ مِنْ الْقُرْآنِ فَلَيْسَ مَسْجِدٌ مِنْ مَسَاجِدِ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا يُتْلَى فِيهِ عُذْرُكِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ فَقَالَتْ دَعْنِي مِنْ تَزْكِيَتِكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ فَوَاللَّهِ لَوَدِدْتُ

ابن ابی ملیکہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مرض الوفات میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے اندر آنے کی اجازت مانگی، ان کے پاس ان کے بھتیجے تھے، وہ کہنے لگیں مجھے اندیشہ ہے کہ یہ آ کر میری تعریفیں کریں گے، بہرحال! انہوں نے اجازت دے دی، انہوں نے اندر آکر کہا کہ آپ کے اور دیگر دوستوں کے درمیان ملاقات کا صرف اتنا ہی وقت باقی ہے جس میں روح جسم سے جدا ہو جائے، آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب رہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی چیز کو محبوب رکھتے تھے جو طیب ہو، لیلۃ الابواء کے موقع پر آپ کا ہار ٹوٹ کر گر پڑا تھا تو آپ کی شان میں قرآن کریم کی آیات نازل ہوگئی تھیں، اب مسلمانوں کی کوئی مسجد ایسی نہیں ہے جہاں پر دن رات آپ کے عذر کی تلاوت نہ ہوتی ہو، یہ سن کر وہ فرمانے لگیں اے ابن عباس! اپنی ان تعریفوں کو چھوڑو، بخدا! میری تو خواہش ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (کہ میں برابر سرابر چھوٹ جاؤں )

یہ حدیث شیئر کریں