مسند احمد ۔ جلد دوم ۔ حدیث 45

عبداللہ بن عباس کی مرویات

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ مِنْ الْأَنْصَارِ فَرُمِيَ بِنَجْمٍ عَظِيمٍ فَاسْتَنَارَ قَالَ مَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ إِذَا كَانَ مِثْلُ هَذَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ قَالَ كُنَّا نَقُولُ يُولَدُ عَظِيمٌ أَوْ يَمُوتُ عَظِيمٌ قُلْتُ لِلزُّهْرِيِّ أَكَانَ يُرْمَى بِهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ قَالَ نَعَمْ وَلَكِنْ غُلِّظَتْ حِينَ بُعِثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّهُ لَا يُرْمَى بِهَا لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ وَلَكِنَّ رَبَّنَا تَبَارَكَ اسْمُهُ إِذَا قَضَى أَمْرًا سَبَّحَ حَمَلَةُ الْعَرْشِ ثُمَّ سَبَّحَ أَهْلُ السَّمَاءِ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ حَتَّى يَبْلُغَ التَّسْبِيحُ هَذِهِ السَّمَاءَ الدُّنْيَا ثُمَّ يَسْتَخْبِرُ أَهْلُ السَّمَاءِ الَّذِينَ يَلُونَ حَمَلَةَ الْعَرْشِ فَيَقُولُ الَّذِينَ يَلُونَ حَمَلَةَ الْعَرْشِ لِحَمَلَةِ الْعَرْشِ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ فَيُخْبِرُونَهُمْ وَيُخْبِرُ أَهْلُ كُلِّ سَمَاءٍ سَمَاءً حَتَّى يَنْتَهِيَ الْخَبَرُ إِلَى هَذِهِ السَّمَاءِ وَيَخْطِفُ الْجِنُّ السَّمْعَ فَيُرْمَوْنَ فَمَا جَاءُوا بِهِ عَلَى وَجْهِهِ فَهُوَ حَقٌّ وَلَكِنَّهُمْ يَقْذِفُونَ وَيَزِيدُونَ قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَيَخْطِفُ الْجِنُّ وَيُرْمَوْنَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدَّثَنِي رِجَالٌ مِنَ الْأَنْصَارِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ كَانُوا جُلُوسًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ إِذْ رُمِيَ بِنَجْمٍ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ إِذَا قَضَى رَبُّنَا أَمْرًا سَبَّحَهُ حَمَلَةُ الْعَرْشِ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ حَتَّى يَبْلُغَ التَّسْبِيحُ السَّمَاءَ الدُّنْيَا فَيَقُولُونَ الَّذِينَ يَلُونَ حَمَلَةَ الْعَرْشِ لِحَمَلَةِ الْعَرْشِ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ فَيَقُولُونَ الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ فَيَقُولُونَ كَذَا وَكَذَا فَيُخْبِرُ أَهْلُ السَّمَاوَاتِ بَعْضُهُمْ بَعْضًا حَتَّى يَبْلُغَ الْخَبَرُ السَّمَاءَ الدُّنْيَا قَالَ وَيَأْتِي الشَّيَاطِينُ فَيَسْتَمِعُونَ الْخَبَرَ فَيَقْذِفُونَ بِهِ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ وَيَرْمُونَ بِهِ إِلَيْهِمْ فَمَا جَاءُوا بِهِ عَلَى وَجْهِهِ فَهُوَ حَقٌّ وَلَكِنَّهُمْ يَزِيدُونَ فِيهِ وَيَقْرِفُونَ وَيَنْقُصُونَ

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ تشریف فرما تھے، اتنی دیر میں ایک بڑا ستارہ ٹوٹا اور روشن ہوگیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب زمانہ جاہلیت میں اس طرح ہوتا تھا تو تم لوگ کیا کہتے تھے؟ لوگوں نے کہا کہ ہم کہتے تھے کسی عظیم آدمی کی پیدائش یا کسی عظیم آدمی کی موت واقع ہونے والی ہے (راوی کہتے ہیں کہ میں نے امام زہری رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کیا زمانہ جاہلیت میں بھی ستارے پھینکے جاتے تھے؟ انہوں نے کہا ہاں ! لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد سختی ہوگئی) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ستاروں کا پھینکا جانا کسی کی موت وحیات کی وجہ سے نہیں ہوتا اصل بات یہ ہے کہ جب ہمارا رب کسی کام کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو حاملین عرش جو فرشتے ہیں وہ تسبیح کرنے لگتے ہیں، ان کی تسبیح سن کر قریب کے آسمان والے بھی تسبیح کرنے لگتے ہیں، حتی کہ ہوتے ہوتے یہ سلسلہ آسمان دنیا تک پہنچ جاتا ہے ، پھر اس آسمان والے فرشتے جو حاملین عرش کے قریب ہوتے ہیں ان سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا کہا ہے؟ وہ انہیں بتا دیتے ہیں، اس طرح ہر آسمان والے دوسرے آسمان والوں کو بتا دیتے ہیں، یہاں تک کہ یہ خبر آسمان دنیا کے فرشتوں تک پہنچتی ہے، وہاں سے جنات کوئی ایک آدھ بات اچک لیتے ہیں، ان پر یہ ستارے پھینکے جاتے ہیں، اب جو بات وہ صحیح صحیح بتا دیتے ہیں وہ تو سچ ثابت ہو جاتی ہے لیکن وہ اکثر ان میں اپنی طرف سے یہ اضافہ کر دیتے ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ تشریف فرما تھے، اتنی دیر میں ایک بڑا ستارہ ٹوٹا اور روشن ہوگیا،۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب ہمارا رب کسی کام کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو حاملین عرش جو فرشتے ہیں وہ تسبیح کرنے لگتے ہیں، ان کی تسبیح سن کر قریب کے آسمان والے بھی تسبیح کرنے لگتے ہیں، حتی کہ ہوتے ہوتے یہ سلسلہ آسمان دنیا تک پہنچ جاتا ہے ، پھر اس آسمان والے فرشتے جو حاملین عرش کے قریب ہوتے ہیں ان سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا کہا ہے؟ وہ انہیں بتا دیتے ہیں، اس طرح ہر آسمان والے دوسرے آسمان والوں کو بتا دیتے ہیں، یہاں تک کہ یہ خبر آسمان دنیا کے فرشتوں تک پہنچتی ہے، وہاں سے جنات کوئی ایک آدھ بات اچک لیتے ہیں، ان پر یہ ستارے پھینکے جاتے ہیں، اب جو بات وہ صحیح صحیح بتا دیتے ہیں وہ تو سچ ثابت ہو جاتی ہے لیکن وہ اکثر ان میں اپنی طرف سے یہ اضافہ کر دیتے ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں