مسند احمد ۔ جلد دوم ۔ حدیث 100

عبداللہ بن عباس کی مرویات

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمَّارٍ عَنْ سَالِمٍ سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنْ رَجُلٍ قَتَلَ مُؤْمِنًا ثُمَّ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَى قَالَ وَيْحَكَ وَأَنَّى لَهُ الْهُدَى سَمِعْتُ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَجِيءُ الْمَقْتُولُ مُتَعَلِّقًا بِالْقَاتِلِ يَقُولُ يَا رَبِّ سَلْ هَذَا فِيمَ قَتَلَنِي وَاللَّهِ لَقَدْ أَنْزَلَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا نَسَخَهَا بَعْدَ إِذْ أَنْزَلَهَا قَالَ وَيْحَكَ وَأَنَّى لَهُ الْهُدَى

حضرت سالم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس شخص کے متعلق پوچھا گیا جس نے کسی مسلمان کو قتل کیا پھر توبہ کر کے ایمان لے آیا، نیک اعمال کئے اور راہ ہدایت پر گامزن رہا؟ فرمایا تم پر افسوس ہے، اسے کہاں ہدایت ملے گی، میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مقتول کو اس حال میں لایا جائے گا کہ وہ قاتل کے ساتھ لپٹا ہوا ہوگا اور کہتا ہوگا کہ پروردگار! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کس جرم کی پاداش میں قتل کیا تھا؟ بخدا! اللہ نے یہ بات تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی تھی اور اسے نازل کرنے کے بعد کبھی منسوخ نہیں فرمایا: تم پر افسوس ہے، اسے ہدایت کہاں ملے گی؟
فائدہ : یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے، جہمور امت اس بات پر متفق ہے کہ قاتل اگر توبہ کرنے کے بعد ایمان اور عمل صالح سے اپنے آپ کو مزین کرلے تو اس کی توبہ قبول ہو جاتی ہے، حقوق العباد کی ادائیگی یا سزا کی صورت میں بھی بہرحال کلمہ کی برکت وہ جہنم سے کسی نہ کسی وقت ضرور نجات پاجائے گا۔

یہ حدیث شیئر کریں