حضرت صدیق اکبر کی مرویات
حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ قَالَ حَدَّثَنَا عِيسَى يَعْنِي ابْنَ الْمُسَيَّبِ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ قَالَ إِنِّي لَجَالِسٌ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَلِيفَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ وَفَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَهْرٍ فَذَكَرَ قِصَّةً فَنُودِيَ فِي النَّاسِ أَنَّ الصَّلَاةَ جَامِعَةٌ وَهِيَ أَوَّلُ صَلَاةٍ فِي الْمُسْلِمِينَ نُودِيَ بِهَا إِنَّ الصَّلَاةَ جَامِعَةٌ فَاجْتَمَعَ النَّاسُ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ شَيْئًا صُنِعَ لَهُ كَانَ يَخْطُبُ عَلَيْهِ وَهِيَ أَوَّلُ خُطْبَةٍ خَطَبَهَا فِي الْإِسْلَامِ قَالَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ وَلَوَدِدْتُ أَنَّ هَذَا كَفَانِيهِ غَيْرِي وَلَئِنْ أَخَذْتُمُونِي بِسُنَّةِ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أُطِيقُهَا إِنْ كَانَ لَمَعْصُومًا مِنْ الشَّيْطَانِ وَإِنْ كَانَ لَيَنْزِلُ عَلَيْهِ الْوَحْيُ مِنْ السَّمَاءِ
قیس بن ابی حازم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے ایک مہینے بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا، لوگوں میں منادی کر دی گئی کہ نماز تیار ہے، اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد وہ پہلی نماز تھی جس کے لئے مسلمانوں میں " الصلوۃ جامعۃ " کہہ کر منادی کی گئی تھی، چنانچہ لوگ جمع ہوگئے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ منبر پر رونق افروز ہوئے، یہ آپ کا پہلا خطبہ تھا جو آپ نے اہل اسلام کے سامنے ارشاد فرمایا: اس خطبے میں آپ رضی اللہ عنہ نے پہلے اللہ کی حمد وثناء کی، پھر فرمایا لوگو! میری خواہش تھی کہ میرے علاوہ کوئی دوسرا شخص اس کام کو سنبھال لیتا، اگر آپ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر رکھ کر دیکھنا چاہیں گے تو میرے اندر اس پر پورا اترنے کی طاقت نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو شیطان کے حملوں سے محفوط تھے اور ان پر تو آسمان سے وحی کا نزول ہوتا تھا (اس لئے میں ان کے برابر کہاں ہوسکتا ہوں ؟)