مسند احمد ۔ جلد اول ۔ حدیث 412

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مرویات

حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ يَعْنِي ابْنَ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ قَالَ دَعَا عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمْ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ فَقَالَ إِنِّي سَائِلُكُمْ وَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ تَصْدُقُونِي نَشَدْتُكُمْ اللَّهَ أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُؤْثِرُ قُرَيْشًا عَلَى سَائِرِ النَّاسِ وَيُؤْثِرُ بَنِي هَاشِمٍ عَلَى سَائِرِ قُرَيْشٍ فَسَكَتَ الْقَوْمُ فَقَالَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَوْ أَنَّ بِيَدِي مَفَاتِيحَ الْجَنَّةِ لَأَعْطَيْتُهَا بَنِي أُمَيَّةَ حَتَّى يَدْخُلُوا مِنْ عِنْدِ آخِرِهِمْ فَبَعَثَ إِلَى طَلْحَةَ وَالزُّبَيْرِ فَقَالَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَلَا أُحَدِّثُكُمَا عَنْهُ يَعْنِي عَمَّارًا أَقْبَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آخِذًا بِيَدِي نَتَمَشَّى فِي الْبَطْحَاءِ حَتَّى أَتَى عَلَى أَبِيهِ وَأُمِّهِ وَعَلَيْهِ يُعَذَّبُونَ فَقَالَ أَبُو عَمَّارٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ الدَّهْرَ هَكَذَا فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اصْبِرْ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِآلِ يَاسِرٍ وَقَدْ فَعَلْتُ

سالم بن ابی الجعد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بلایاجن میں حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بھی تھے، اور فرمایا کہ میں آپ لوگوں سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں اور آپ سے چند باتوں کی تصدیق کروانا چاہتا ہوں، میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ لوگ نہیں جانتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے لوگوں کی نسبت قریش کو ترجیح دیتے تھے اور بنو ہاشم کو تمام قریش پر؟ لوگ خاموش رہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر میرے ہاتھ میں جنت کی چابیاں ہوں تو میں وہ بنو امیہ کودے دوں تاکہ وہ سب کے سب جنت میں داخل ہو جائیں (قرابت داروں سے تعلق ہونا ایک فطری چیز ہے، یہ دراصل اس سوال کا جواب تھا جو لوگ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر اقرباء پروری کے سلسلے میں کرتے تھے) اس کے بعد انہوں نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میں آپ کو ان کی یعنی حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی کچھ باتیں بتاؤں؟ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے چلتا چلتا وادی بطحاء میں پہنچا، یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے والدین کے پاس جا پہنچے، وہاں انہیں مختلف سزائیں دی جا رہی تھیں، عمار کے والد نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر عرض کیا یا رسول اللہ! کیا ہم ہمیشہ اسی طرح رہیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا صبر کرو، پھر دعاء فرمائی اے اللہ! آل یاسر کی مغفرت فرما، میں بھی اب صبر کر رہا ہوں ۔

یہ حدیث شیئر کریں