حضرت صدیق اکبر کی مرویات
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ قَالَ إِسْرَائِيلُ قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ عَنْ زَيْدِ بْنِ يُثَيْعٍ عَنْ أَبِي بَكْرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَهُ بِبَرَاءَةٌ لِأَهْلِ مَكَّةَ لَا يَحُجُّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ وَلَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ وَلَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ مَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُدَّةٌ فَأَجَلُهُ إِلَى مُدَّتِهِ وَاللَّهُ بَرِيءٌ مِنْ الْمُشْرِكِينَ وَرَسُولُهُ قَالَ فَسَارَ بِهَا ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ الْحَقْهُ فَرُدَّ عَلَيَّ أَبَا بَكْرٍ وَبَلِّغْهَا أَنْتَ قَالَ فَفَعَلَ قَالَ فَلَمَّا قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ بَكَى قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ حَدَثَ فِيَّ شَيْءٌ قَالَ مَا حَدَثَ فِيكَ إِلَّا خَيْرٌ وَلَكِنْ أُمِرْتُ أَنْ لَا يُبَلِّغَهُ إِلَّا أَنَا أَوْ رَجُلٌ مِنِّي
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں امیر حج بنا کر بھیجتے وقت اہل مکہ سے اس برائت کا اعلان کرنے کی ذمہ داری بھی سونپی تھی کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرسکے گا، کوئی آدمی برہنہ ہو کر طواف نہیں کرسکے گا، جنت میں صرف وہی شخص داخل ہوسکے گا جو مسلمان ہو، جس شخص کا پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی خاص مدت کے لئے کوئی معاہدہ پہلے سے ہوا ہو، وہ اپنی مدت کے اختتام تک برقرار رہے گا، اور یہ کہ اللہ اور اس کا پیغمبر مشرکین سے بری ہیں ۔
جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اس پیغام کو لے کر روانہ ہوگئے اور تین دن کی مسافت طے کرچکے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے جاؤ اور انہیں میرے پاس واپس بلا کر لاؤ، اور امارت حج نہیں لیکن صرف پیغام تم نے اہل مکہ تک پہنچانا ہے، حضرت علی صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوگئے، جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ واپس آئے تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور وہ کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! کیا میرے بارے کوئی نئی بات پیش آگئی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ کے بارے تو صرف خیر ہی پیش آسکتی ہے، اصل بات یہ ہے کہ اس پیغام کو اہل عرب کے رواج کے مطابق اہل مکہ تک یا خود میں پہنچا سکتا تھا یا میرے خاندان کا کوئی فرد، اس لئے میں نے صرف یہ ذمہ داری حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سپرد کردی۔