حضرت عمر فاروق عنہ کی مرویات
حَدَّثَنَا أَبُو الْمُنْذِرِ إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُمَرَ أُرَاهُ عَنِ حَجَّاجٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ قَتَلَ رَجُلٌ ابْنَهُ عَمْدًا فَرُفِعَ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَجَعَلَ عَلَيْهِ مِائَةً مِنْ الْإِبِلِ ثَلَاثِينَ حِقَّةً وَثَلَاثِينَ جَذَعَةً وَأَرْبَعِينَ ثَنِيَّةً وَقَالَ لَا يَرِثُ الْقَاتِلُ وَلَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يُقْتَلُ وَالِدٌ بِوَلَدِهِ لَقَتَلْتُكَ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے اپنے بیٹے کو جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر مار ڈالا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں یہ معاملہ پیش ہوا تو انہوں نے اس پر سو اونٹ دیت واجب قرار دی، تیس حقے، تیس جذعے اور چالیس ثنیے یعنی جو دوسرے سال میں لگے ہوں ، اور فرمایا قاتل وارث نہیں ہوتا، اور اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ باپ کو بیٹے کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا تو میں تجھے قتل کردیتا۔
فائدہ : حقہ اور جذعہ کی تعریف پیچھے گذر چکی ہے۔