حضرت عمر فاروق عنہ کی مرویات
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ وَأَخْبَرَنِي هُشَيْمٌ عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ عَنِ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ عَنْ عُمَارَةَ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَى أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ هِيَ سُنَّةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي الْمُتْعَةَ وَلَكِنِّي أَخْشَى أَنْ يُعَرِّسُوا بِهِنَّ تَحْتَ الْأَرَاكِ ثُمَّ يَرُوحُوا بِهِنَّ حُجَّاجًا
حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگرچہ حج تمتع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ اپنی اپنی بیویوں کے ساتھ پیلو کے درخرت کے نیچے رات گذاریں اور صبح کو اٹھ کر حج کی نیت کرلیں ۔
فائدہ : دراصل حج تمتع میں آدمی عمرہ کر کے احرام کھول لیتا ہے اور اس کے لئے اپنی بیوی کے قریب جاناحلال ہو جاتا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ آٹھ ذی الحجہ کو جب حج کا احرام کھول لیتا ہے اور اس کے لئے اپنی بیوی کے قریب جاناحلال ہو جاتا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ آٹھ ذی الحجہ کو جب حج کا احرام باندھنا ہو، اسی رات وہ اپنی بیوی کے پاس رہا ہو اور صبح اس کے سر سے پانی کے ٹپکتے ہوئے قطرات لوگوں کو کچھ اشارات دے رہے ہوں ، اس وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے اچھا نہیں سمجھتے تھے، ورنہ اس کے نفس جواز میں کوئی اختلاف نہیں ۔