مسند احمد ۔ جلد اول ۔ حدیث 278

حضرت عمر فاروق عنہ کی مرویات

حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحٍ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فَقَالَ سَالِمٌ فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ قَالَ عُمَرُ أَرْسِلُوا إِلَيَّ طَبِيبًا يَنْظُرُ إِلَى جُرْحِي هَذَا قَالَ فَأَرْسَلُوا إِلَى طَبِيبٍ مِنْ الْعَرَبِ فَسَقَى عُمَرَ نَبِيذًا فَشُبِّهَ النَّبِيذُ بِالدَّمِ حِينَ خَرَجَ مِنْ الطَّعْنَةِ الَّتِي تَحْتَ السُّرَّةِ قَالَ فَدَعَوْتُ طَبِيبًا آخَرَ مِنْ الْأَنْصَارِ مِنْ بَنِي مُعَاوِيَةَ فَسَقَاهُ لَبَنًا فَخَرَجَ اللَّبَنُ مِنْ الطَّعْنَةِ صَلْدًا أَبْيَضَ فَقَالَ لَهُ الطَّبِيبُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اعْهَدْ فَقَالَ عُمَرُ صَدَقَنِي أَخُو بَنِي مُعَاوِيَةَ وَلَوْ قُلْتَ غَيْرَ ذَلِكَ كَذَّبْتُكَ قَالَ فَبَكَى عَلَيْهِ الْقَوْمُ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ فَقَالَ لَا تَبْكُوا عَلَيْنَا مَنْ كَانَ بَاكِيًا فَلْيَخْرُجْ أَلَمْ تَسْمَعُوا مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يُعَذَّبُ الْمَيِّتُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ فَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَانَ عَبْدُ اللَّهِ لَا يُقِرُّ أَنْ يُبْكَى عِنْدَهُ عَلَى هَالِكٍ مِنْ وَلَدِهِ وَلَا غَيْرِهِمْ

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے قاتلانہ حملہ میں زخمی ہونے کے بعد فرمایا میرے پاس طبیب کو بلا کر لاؤ جو میرے زخموں کی دیکھ بھال کرے، چنانچہ عرب کا ایک نامی گرامی طبیب بلایا گیا، اس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو نبیذ پلائی، لیکن وہ ناف کے نیچے لگے ہوئے زخم سے نکل آئی اور اس کا رنگ خون کی طرح سرخ ہوچکا تھا ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کے بعد انصار کے بنو معاویہ میں سے ایک طبیب کو بلایا، اس نے آکر انہیں دودھ پلایا، وہ بھی ان کے زخم سے چکناسفید نکل آیا، طبیب نے یہ دیکھ کر کہا کہ امیرالمومنین! اب وصیت کر دیجئے، (یعنی اب بچنا مشکل ہے) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ انہوں نے سچ کہا، اگر تم کوئی دوسری بات کہتے تو میں تمہاری بات نہ مانتا۔ یہ سن کر لوگ رونے لگے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھ پر مت روؤ، جو رونا چاہتا ہے وہ باہر چلاجائے کیا تم لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نہیں سنا کہ میت کو اس کے اہل خانہ کے رونے سے عذاب ہوتا ہے، اسی وجہ سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنے بیٹوں یا کسی اور کے انتقال پر رونے والوں کو اپنے پاس نہیں بٹھاتے تھے۔

یہ حدیث شیئر کریں