مسند احمد ۔ جلد اول ۔ حدیث 181

حضرت عمر فاروق عنہ کی مرویات

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ أَنَا سَأَلْتُهُ حَدَّثَنَا هِشَامٌ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَطَبَ يَوْمَ جُمُعَةٍ فَذَكَرَ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَكَرَ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَقَالَ إِنِّي قَدْ رَأَيْتُ كَأَنَّ دِيكًا قَدْ نَقَرَنِي نَقْرَتَيْنِ وَلَا أُرَاهُ إِلَّا لِحُضُورِ أَجَلِي وَإِنَّ أَقْوَامًا يَأْمُرُونِي أَنْ أَسْتَخْلِفَ وَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُنْ لِيُضِيعَ دِينَهُ وَلَا خِلَافَتَهُ وَالَّذِي بَعَثَ بِهِ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنْ عَجِلَ بِي أَمْرٌ فَالْخِلَافَةُ شُورَى بَيْنَ هَؤُلَاءِ السِّتَّةِ الَّذِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ وَإِنِّي قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ قَوْمًا سَيَطْعُنُونَ فِي هَذَا الْأَمْرِ أَنَا ضَرَبْتُهُمْ بِيَدِي هَذِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ فَإِنْ فَعَلُوا فَأُولَئِكَ أَعْدَاءُ اللَّهِ الْكَفَرَةُ الضُّلَّالُ وَإِنِّي لَا أَدَعُ بَعْدِي شَيْئًا أَهَمَّ إِلَيَّ مِنْ الْكَلَالَةِ وَمَا أَغْلَظَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَيْءٍ مُنْذُ صَاحَبْتُهُ مَا أَغْلَظَ لِي فِي الْكَلَالَةِ وَمَا رَاجَعْتُهُ فِي شَيْءٍ مَا رَاجَعْتُهُ فِي الْكَلَالَةِ حَتَّى طَعَنَ بِإِصْبَعِهِ فِي صَدْرِي وَقَالَ يَا عُمَرُ أَلَا تَكْفِيكَ آيَةُ الصَّيْفِ الَّتِي فِي آخِرِ سُورَةِ النِّسَاءِ فَإِنْ أَعِشْ أَقْضِي فِيهَا قَضِيَّةً يَقْضِي بِهَا مَنْ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَمَنْ لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أُشْهِدُكَ عَلَى أُمَرَاءِ الْأَمْصَارِ فَإِنَّمَا بَعَثْتُهُمْ لِيُعَلِّمُوا النَّاسَ دِينَهُمْ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَقْسِمُوا فِيهِمْ فَيْئَهُمْ وَيَعْدِلُوا عَلَيْهِمْ وَيَرْفَعُوا إِلَيَّ مَا أَشْكَلَ عَلَيْهِمْ مِنْ أَمْرِهِمْ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ تَأْكُلُونَ مِنْ شَجَرَتَيْنِ لَا أُرَاهُمَا إِلَّا خَبِيثَتَيْنِ لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا وَجَدَ رِيحَهُمَا مِنْ الرَّجُلِ فِي الْمَسْجِدِ أَمَرَ بِهِ فَأُخِذَ بِيَدِهِ فَأُخْرِجَ إِلَى الْبَقِيعِ وَمَنْ أَكَلَهُمَا فَلْيُمِتْهُمَا طَبْخًا

ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن منبر پر خطبہ کے لئے تشریف لائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی یاد تازہ کی پھر فرمانے لگے کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری دنیا سے رخصتی کا وقت قریب آگیا ہے، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک مرغے نے مجھے دو مرتبہ ٹھونگ ماری ہے۔ کچھ لوگ مجھ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنا خلیفہ مقر کردوں ، اتنی بات تو طے ہے کہ اللہ اپنے دین کو ضائع کرے گا اور نہ ہی اس خلافت کو جس کے ساتھ اللہ نے اپنے پیغمبر کو مبعوث فرمایا تھا، اب اگر میرا فیصلہ جلد ہوگیا تو میں مجلس شوری ان چھ افراد کی مقرر کررہاہوں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بوقت رحلت راضی ہو کر تشریف لے گئے تھے۔ میں جانتاہوں کہ کچھ لوگ مسئلہ خلافت میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کریں گے، بخدا! میں اپنے ان ہاتھوں سے اسلام کی مدافعت میں ان لوگوں سے قتال کرچکاہوں ، اگر یہ لوگ ایسا کریں تو یہ لوگ دشمنان خدا، کافر اور گمراہ ہیں ، میں نے اپنے پیچھے کلالہ سے زیادہ اہم مسئلہ کوئی نہیں چھوڑا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کرنے کے بعد مجھے یاد نہیں پڑتاکہ کسی مسئلہ میں آپ مجھ سے ناراض ہوئے ہوں ، سوائے کلالہ کے مسئلہ کے کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی سخت ناراض ہوئے تھے، اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز میں اتنا تکرار نہیں کیا جتناکلالہ کے مسئلے میں کیا تھا ، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی میرے سینے پر رکھ کر فرمایا کیا تمہارے لئے اس مسئلے میں سورت نساء کی وہ آخری آیت جو گرمی میں نازل ہوئی تھی کافی نہیں ہے؟۔ اگر میں زندہ رہا تو اس مسئلے کا ایسا حل نکال کر جاؤں گا کہ اس آیت کو پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے سب ہی کے علم میں وہ حل آجائے، پھر فرمایا میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتاہوں کہ میں نے مختلف شہروں میں جوامراء اور گورنربھیجے ہیں وہ صرف اس لئے کہ وہ لوگوں کودین سکھائیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں لوگوں کےسامنے بیان کریں ، ان میں مال غنیمت تقسیم کریں ، ان میں انصاف کریں اور میرے سامنے ان کے وہ مسائل پیش کریں جن کا ان کے پاس کوئی حل نہ ہو۔ لوگو! تم دو درختوں میں سے کھاتے ہوجنہیں میں گندہ سمجھتاہوں (ایک لہسن اور دوسرا پیاز، جنہیں کچا کھانے سے منہ میں بدبو پیدا ہوجاتی ہے) میں نے دیکھا ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی شخص کے منہ سے اس کی بدبو آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے اور اسے ہاتھ سے پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیا جاتا تھا اور یہی نہیں بلکہ اس کو جنت البقیع تک پہنچا کر لوگ واپس آتے تھے، اگر کوئی شخص انہیں کھانا ہی چاہتا ہے تو پکا کر ان کی بدبوماردے۔

یہ حدیث شیئر کریں