حضرت عمر فاروق عنہ کی مرویات
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ حُمْرَةَ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ قَالَ سَارَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى الشَّامِ بَعْدَ مَسِيرِهِ الْأَوَّلِ كَانَ إِلَيْهَا حَتَّى إِذَا شَارَفَهَا بَلَغَهُ وَمَنْ مَعَهُ أَنَّ الطَّاعُونَ فَاشٍ فِيهَا فَقَالَ لَهُ أَصْحَابُهُ ارْجِعْ وَلَا تَقَحَّمْ عَلَيْهِ فَلَوْ نَزَلْتَهَا وَهُوَ بِهَا لَمْ نَرَ لَكَ الشُّخُوصَ عَنْهَا فَانْصَرَفَ رَاجِعًا إِلَى الْمَدِينَةِ فَعَرَّسَ مِنْ لَيْلَتِهِ تِلْكَ وَأَنَا أَقْرَبُ الْقَوْمِ مِنْهُ فَلَمَّا انْبَعَثَ انْبَعَثْتُ مَعَهُ فِي أَثَرِهِ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ رَدُّونِي عَنْ الشَّامِ بَعْدَ أَنْ شَارَفْتُ عَلَيْهِ لِأَنَّ الطَّاعُونَ فِيهِ أَلَا وَمَا مُنْصَرَفِي عَنْهُ مُؤَخِّرٌ فِي أَجَلِي وَمَا كَانَ قُدُومِيهِ مُعَجِّلِي عَنْ أَجَلِي أَلَا وَلَوْ قَدْ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَفَرَغْتُ مِنْ حَاجَاتٍ لَا بُدَّ لِي مِنْهَا لَقَدْ سِرْتُ حَتَّى أَدْخُلَ الشَّامَ ثُمَّ أَنْزِلَ حِمْصَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَيَبْعَثَنَّ اللَّهُ مِنْهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ سَبْعِينَ أَلْفًا لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ وَلَا عَذَابَ عَلَيْهِمْ مَبْعَثُهُمْ فِيمَا بَيْنَ الزَّيْتُونِ وَحَائِطِهَا فِي الْبَرْثِ الْأَحْمَرِ مِنْهَا
حمرہ بن عبد کلال کہتے ہیں کہ پہلے سفر شام کے بعد کے بعد ایک مرتبہ پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ شام کی طرف روانہ ہوئے، جب اس کے قریب پہنچے تو آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو یہ خبر ملی کی شام میں طاعون کی وباء پھوٹ پڑی ہے، ساتھیوں نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے کہا کہ یہیں سے واپس لوٹ چلیے، آگے مت بڑھیے، اگر آپ وہاں چلے گئے اور واقعی یہ وباء وہاں پھیلی ہوئی ہو تو ہمیں آپ کو وہاں سے منتقل کرنے کی کوئی صورت پیش نہیں آئے گی۔ چنانچہ مشورہ کے مطابق حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ واپس آگئے، اس رات جب آپ نے آخری پہر میں پڑاؤ ڈالا تو میں آپ کے سب سے زیادہ قریب تھا، جب وہ اٹھے تو میں بھی ان کے پیچھے پیچھے اٹھ گیا، میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں شام کے قریب پہنچ گیا تھا لیکن یہ لوگ مجھے وہاں سے اس بناء پر واپس لے آئے کہ وہاں طاعون کی وباء پھیلی ہوئی ہے، حالانکہ وہاں سے واپس آجانے کی بناء پر میری موت کے وقت میں توتاخیر ہو نہیں سکتی، اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ میری موت کا پیغام جلد آجائے اس لئے اب میرا ارادہ یہ ہے کہ اگر میں مدینہ منورہ پہنچ کر ان تمام ضروری کاموں سے فارغ ہو گیا جن میں میری موجودگی ضروری ہے تو میں شام کی طرف دوبارہ ضرور روانہ ہوں گا اور شہر " حمص " میں پڑاؤ کروں گا، کیونکہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے ستر ہزار ایسے بندوں کو اٹھائے گا جن کا حساب ہوگا اور نہ ہی عذاب اور ان کے اٹھائے جانے کی جگہ زیتون کے درخت اور سرخ ونرم زمین میں اس کے باغ کے درمیان ہوگی۔