حضرت عمر فاروق عنہ کی مرویات
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ بِعَرَفَةَ قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ وَحَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ خَيْثَمَةَ عَنْ قَيْسِ بْنِ مَرْوَانَ أَنَّهُ أَتَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ جِئْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْ الْكُوفَةِ وَتَرَكْتُ بِهَا رَجُلًا يُمْلِي الْمَصَاحِفَ عَنْ ظَهْرِ قَلْبِهِ فَغَضِبَ وَانْتَفَخَ حَتَّى كَادَ يَمْلَأُ مَا بَيْنَ شُعْبَتَيْ الرَّحْلِ فَقَالَ وَمَنْ هُوَ وَيْحَكَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ فَمَا زَالَ يُطْفَأُ وَيُسَرَّى عَنْهُ الْغَضَبُ حَتَّى عَادَ إِلَى حَالِهِ الَّتِي كَانَ عَلَيْهَا ثُمَّ قَالَ وَيْحَكَ وَاللَّهِ مَا أَعْلَمُهُ بَقِيَ مِنْ النَّاسِ أَحَدٌ هُوَ أَحَقُّ بِذَلِكَ مِنْهُ وَسَأُحَدِّثُكَ عَنْ ذَلِكَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَزَالُ يَسْمُرُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اللَّيْلَةَ كَذَاكَ فِي الْأَمْرِ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ وَإِنَّهُ سَمَرَ عِنْدَهُ ذَاتَ لَيْلَةٍ وَأَنَا مَعَهُ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَرَجْنَا مَعَهُ فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمَسْجِدِ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَمِعُ قِرَاءَتَهُ فَلَمَّا كِدْنَا أَنْ نَعْرِفَهُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَقْرَأَ الْقُرْآنَ رَطْبًا كَمَا أُنْزِلَ فَلْيَقْرَأْهُ عَلَى قِرَاءَةِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ قَالَ ثُمَّ جَلَسَ الرَّجُلُ يَدْعُو فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَهُ سَلْ تُعْطَهْ سَلْ تُعْطَهْ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قُلْتُ وَاللَّهِ لَأَغْدُوَنَّ إِلَيْهِ فَلَأُبَشِّرَنَّهُ قَالَ فَغَدَوْتُ إِلَيْهِ لِأُبَشِّرَهُ فَوَجَدْتُ أَبَا بَكْرٍ قَدْ سَبَقَنِي إِلَيْهِ فَبَشَّرَهُ وَلَا وَاللَّهِ مَا سَبَقْتُهُ إِلَى خَيْرٍ قَطُّ إِلَّا وَسَبَقَنِي إِلَيْهِ
قیس بن روان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ امیرالمومنین! میں کوفہ سے آپ کے پاس آرہا ہوں ، وہاں میں ایک ایسے آدمی کو چھوڑ کر آیا ہوں جو اپنی یاد سے قرآن کریم املاء کروا رہا ہے، یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ غضب ناک ہوگئے اور ان کی رگیں اس طرح پھول گئیں کہ کجاوے کے دونوں کنارے ان سے بھرگئے، اور مجھ سے پوچھا افسوس! وہ کون ہے؟ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا نام لیا۔ میں نے دیکھا کہ ان کا نام سنتے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا غصہ ٹھنڈا ہونے لگا اور ان کی وہ کیفیت ختم ہونا شروع ہوگئی، یہاں تک کہ وہ نارمل ہوگئے اور مجھ سے فرمایا کمبخت! میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرے علم کے مطابق لوگوں میں ان سے زیادہ اس کا کوئی حق دار نہیں ہے، اور میں تمہیں اس کے متعلق ایک حدیث سناتا ہوں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول مبارک تھا کہ رات کے وقت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسلمانوں کے معاملات میں مشورہ کرنے کے لئے تشریف لے جاتے تھے، ایک مرتبہ اسی طرح رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھے، میں بھی وہاں موجود تھا، فراغت کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے نکلے تو ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکل آئے، دیکھا کہ ایک آدمی مسجد میں کھڑا نماز پڑھ رہا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قرأت سننے کے لئے کھڑے ہوگئے۔ ابھی ہم اس آدمی کی آواز پہچاننے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص قرآن کریم کو اسی طرح تروتازہ پڑھنا چاہے جیسے وہ نازل ہوا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ ابن ام عبد کی قرأت پر اسے پڑھے، پھر وہ آدمی بیٹھ کر دعاء کرنے لگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے فرمانے لگے مانگو، تمہیں عطاء کیا جائےگا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ صبح ہوتے ہی میں انہیں یہ خوشخبری ضرور سناؤں گا، چنانچہ جب میں صبح انہیں یہ خوشخبری سنانے کے لئے پہنچا تو وہاں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو بھی پایا، وہ مجھ پر اس معاملے میں بھی سبقت لے گئے۔