مسند احمد ۔ جلد دوم ۔ حدیث 126

عبداللہ بن عباس کی مرویات

حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ عَنْ عَطَاءٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَتَبَ نَجْدَةُ الْحَرُورِيُّ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ قَتْلِ الصِّبْيَانِ وَعَنْ الْخُمُسِ لِمَنْ هُوَ وَعَنْ الصَّبِيِّ مَتَى يَنْقَطِعُ عَنْهُ الْيُتْمُ وَعَنْ النِّسَاءِ هَلْ كَانَ يَخْرُجُ بِهِنَّ أَوْ يَحْضُرْنَ الْقِتَالَ وَعَنْ الْعَبْدِ هَلْ لَهُ فِي الْمَغْنَمِ نَصِيبٌ قَالَ فَكَتَبَ إِلَيْهِ ابْنُ عَبَّاسٍ أَمَّا الصِّبْيَانُ فَإِنْ كُنْتَ الْخَضِرَ تَعْرِفُ الْكَافِرَ مِنْ الْمُؤْمِنِ فَاقْتُلْهُمْ وَأَمَّا الْخُمُسُ فَكُنَّا نَقُولُ إِنَّهُ لَنَا فَزَعَمَ قَوْمُنَا أَنَّهُ لَيْسَ لَنَا وَأَمَّا النِّسَاءُ فَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ مَعَهُ بِالنِّسَاءِ فَيُدَاوِينَ الْمَرْضَى وَيَقُمْنَ عَلَى الْجَرْحَى وَلَا يَحْضُرْنَ الْقِتَالَ وَأَمَّا الصَّبِيُّ فَيَنْقَطِعُ عَنْهُ الْيُتْمُ إِذَا احْتَلَمَ وَأَمَّا الْعَبْدُ فَلَيْسَ لَهُ مِنْ الْمَغْنَمِ نَصِيبٌ وَلَكِنَّهُ قَدْ كَانَ يُرْضَخُ لَهُمْ

عطاء کہتے ہیں کہ نجدہ حروری نے ایک خط میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بچوں کو قتل کرنے کے متعلق دریافت کیا اور یہ پوچھا کہ " خمس " کس کا حق ہے؟ بچے سے یتیمی کا لفظ کب ختم ہوتا ہے؟ کیا عورتوں کو جنگ میں لے کر نکلا جا سکتا ہے؟ کیا غلام کا مال غنیمت میں کوئی حصہ ہے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں لکھا کہ جہاں تک بچوں کا تعلق ہے تو اگر تم خضر علیہ السلام ہو کر مومن اور کافر میں فرق کر سکتے ہو تو ضرور قتل کرو، جہاں تک خمس کامسئلہ ہے تو ہم یہی کہتے تھے کہ یہ ہمارا حق ہے لیکن ہماری قوم کا خیال ہے کہ ہمارا حق نہیں ہے، رہا عورتوں کا معاملہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ عورتوں کو جنگ میں لے جایا کرتے تھے، وہ بیماروں کا علاج اور زخمیوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں لیکن جنگ میں شریک نہیں ہوتی تھیں اور بچے سے یتیمی کا داغ اس کے بالغ ہونے کے بعد دھل جاتا ہے اور باقی رہا غلام تو مال غنیمت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے، البتہ انہیں بھی تھوڑا بہت دے دیا جاتا تھا۔

یہ حدیث شیئر کریں