اسلام میں مبلغ کا مقام
راوی:
وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال : إن وفد عبد القيس لما أتوا النبي صلى الله عليه و سلم : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من القوم ؟ أو : من الوفد ؟ " قالوا : ربيعة . قال : " مرحبا بالقوم أو : بالوفد غير خزايا ولا ندامى " . قالوا : يا رسول الله إنا لا نستطيع أن نأتيك إلا في الشهر الحرام وبيننا وبينك هذا الحي من كفار مضر فمرنا بأمر فصل نخبر به من وراءنا وندخل به الجنة وسألوه عن الأشربة . فأمرهم بأربع ونهاهم عن أربع : أمرهم بالإيمان بالله وحده قال : " أتدرون ما الإيمان بالله وحده ؟ " قالوا : الله ورسوله أعلم . قال : " شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة وصيام رمضان وأن تعطوا من المغنم الخمس "
ونهاهم عن أربع : عن الحنتم والدباء والنقير والمزفت وقال : " احفظوهن وأخبروا بهن من وراءكم " ولفظه للبخاري
" اور حضرت عبداللہ ابن عباس( حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا حضرت عباس کے صاحبزادے ہیں جو خیر الامت کے لقب سے مشہور ہیں، ستر برس کی عمر میں بمقام طائف وفات پائی۔)
بیان کرتے ہیں کہ جب وفد عبدالقیس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں مدینہ پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : یہ کون لوگ ہیں یا یوں پوچھا کہ یہ کس قبیلے کا وفد ہے؟ (راوی کو شک ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں، قوم کا لفظ فرمایا یا وفد کا) لوگوں نے جواب دیا کہ " قبیلہ ربیعہ کے افراد ہیں" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خوش آمدید (چونکہ تم لوگ خوشی سے مسلمان ہو کر آئے ہو اس لئے) نہ دنیا میں تمہارے لئے رسوائی ہے اور نہ آخرت کی شرمندگی، اہل وفد نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! چونکہ ہمارے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان " کفار مضر" کا (مشہور جنگ جو) قبیلہ رہتا ہے اس لئے ہم آپ کی خدمت میں جلد جلد حاضر نہیں ہو سکتے صرف ان مہینوں میں آسکتے ہیں جن میں لڑنا حرام ہے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ایسے احکام ہمیں عطا فرما دیجئے جن پر ہم خود بھی عمل کریں اور ان لوگوں کو (بھی) ہم اس سے آگاہ کر دیں جن کو اپنے پیچھے (وطن و قوم میں) چھوڑ آئے ہیں اور اس پر عمل کرنے سے ہم جنت میں داخل ہو جائیں (اور اسی کے ساتھ) انہوں نے (ان) برتنوں کی بابت بھی پوچھا (جن میں نبیذ بنائی جاتی تھی کہ کون سے استعمال میں لائے جاسکتے ہیں، اور کون سے نہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو چار باتوں کا حکم دیا اور چار باتوں سے منع کیا اور اول اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لانے کا حکم دیا اور فرمایا جانتے ہو اللہ کی وحدانیت پر ایمان لانے کا مطلب کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جانتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جانتے ہو اللہ کی وحدانیت پر ایمان لانا) اس حقیقت کی شہادت دینا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، پابندی سے نماز پڑھنا، زکوۃ دینا، اور ماہ رمضان کے روزے رکھنا (ان چار باتوں کے علاوہ بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) مال غنیمت میں سے پانچویں حصے کے دینے کا حکم بھی فرمایا۔ اور ان چار برتنوں کے استعمال سے منع فرمایا : لاکھ کئے ہوئے برتنوں سے، کدو کے تونبوں سے درخت کی کھوکھلی جڑوں سے بنائے ہوئے برتنوں سے ، رال کئے ہوئے برتنوں سے، اور فرمایا : ان باتوں کو اچھی طرح یاد کر لو اور جن مسلمانوں کو اپنے پیچھے (وطن میں) چھوڑ آئے ہو ان کو بھی باتوں سے آگاہ کر دو۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم ، الفاظ صحیح البخاری کے ہیں)
تشریح
اسلام کی آواز جب مکہ اور مدینہ کے اطراف سے نکل کر دوسرے علاقوں میں پہنچی تو مختلف مقامات کے قبیلوں اور قوموں کے افراد وفد کی شکل میں اسلامی تعلیمات کی حقیقت اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی صداقت کو جاننے اور سمجھنے کے لئے دربار سالت میں حاضر ہونے لگے۔ یہ وفود دینی تعلیمات اور اسلامی فرائض کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کرتے ۔
احادیث میں ایسے بہت سے وفود کا ذکر آتا ہے جو اس سلسلہ میں دربار رسالت میں حاضر ہوئے اور اسلام کی آواز کو دور دراز کے علاقوں اور قبیلوں تک پہنچانے کا ذریعہ بنے، ایسا ہی ایک وفد عبدالقیس ہے جس کا تذکرہ اس حدیث میں کیا جا رہا ہے۔ عبدالقیس دراصل سربراہ وفد کا نام تھا انہی کی نسبت سے یہ وفد مشہور ہوا۔ یہ لوگ بحرین کے باشندے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دو مرتبہ حاضر ہوئے پہلی مرتبہ فتح مکہ سے پہلے ٥ھ میں، اس وقت ان کی تعداد ١٣ یا ١٤، تھی، دوسری مرتبہ ٨ یا ٩ھ میں جب ان کی تعداد چالیس تھی یہی وہ وفد ہے جس کے قبیلہ کی مسجد میں اسلام میں مسجد نبوی کے بعد سب سے پہلے جمعہ قائم ہوا ہے چنانچہ صحیح البخاری کی روایت ہے : (حدیث
اول جمعۃ بعد جمعۃ مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی مسجد عبدالقیس بجواثی من البجرین۔)
" مسجد نبوی کے بعد سب سے پہلا جمعہ بحرین کے مقام جواثی میں عبدالقیس کی مسجد میں ادا کیا گیا۔
اس وفد کی آمد کے سلسلہ میں یہ منقول ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا تھا کہ تمہارے پاس ابھی ایک ایسا قافلہ آنے والا ہے جو اہل مشرق میں سب سے بہتر ہے۔ سیدنا عمر ان کو دیکھنے کے لئے کھڑے ہوئے تو انہیں تیرہ آدمیوں کا قافلہ آتا ہوا نظر آیا جب قافلہ قریب آیا حضرت عمر فاروق نے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشخبری سنائی اور قافلہ کے ساتھ ساتھ دربار رسالت میں حاضر ہوئے ، اہل قافلہ کی نظر جوں ہی روئے انور صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑی سب کے سب بے تابانہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑ پڑے اور فرط اشتیاق سے اپنا سامان اسی طرح چھوڑ کر دیوانہ وار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک چومنے لگے، حضرت عبدالقیس جو امیر قافلہ تھے اگرچہ نوعمر تھے لیکن سب سے پیچھے رہ گئے تھے ، انہوں نے پہلے سب کے اونٹ باندھے پھر اپنا بکس کھولا، سفر کے کپڑے اتارے اور دوسرا لباس تبدیل کیا پھر سکون و وقار کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کو بوسہ دیا آدمی بد شکل تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف نظر اٹھائی تو انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! آدمی کی محبت صرف اس ڈھانچہ سے نہیں ہوتی بلکہ اس کی قدر و قیمت اس کے دو چھوٹے اعضاء بتاتے ہیں اور وہ " زبان و دل" ہیں،" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " تم میں دو خصلتیں ہیں جن کو اللہ و رسول پسند کرتے ہیں یعنی دانائی اور بردباری۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ خصلتیں مجھ میں پیدائشی ہیں یا کسبی ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " پیدائشی" ۔
اس قبیلہ کے افراد کو اپنے وطن سے مدینہ آنے کے لئے " کفار مضر" قبیلے کے پاس سے گزرنا پڑتا تھا اس قبیلہ کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ بہت زیادہ جنگ جو تھا۔ ان کی آبادی کے قریب سے جو بھی گزرتا تھا ان سے جنگ ہونی ضرور تھی اس لئے اس وفد نے کہا چونکہ ہمارے لئے عام دنوں میں آنا بہت مشکل ہے، اس لئے بار بار نہیں آسکتے، صرف ان ہی مہینوں میں آسکتے ہیں جو عرب میں اشہر حرام سمجھے جاتے ہیں، اہل وفد کو جن چیزوں کو تعلیم دی گئی وہ چار ہیں :
(١) اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ (٢) نماز۔ (٣) روزہ۔ (٤) حج کا ذکر نہیں کیا گیا لیکن بعض محدثین نے اس حدیث میں " حج البیت" کے الفاظ ذکر کئے ہیں جس کو حافظ ابن حجر نے شاذ قرار دیا ہے۔
ان لوگوں کو ایک حکم بعد میں جو بطور خاص دیا گیا وہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ ادا کرنے کا تھا اور ان کو یہ حکم اس لئے دیا گیا تھا کہ یہ لوگ اکثر جہاد کیا کرتے تھے اور کفار سے مقابلہ آرائی کے نتیجہ میں مال غنیمت حاصل کرتے تھے۔
جن چار چیزوں سے ان لوگوں کو منع کیا گیا وہ چار برتن تھے جن کے استعمال کی ان دنوں ممانعت تھی اصل میں یہ مخصوص قسم کے برتن ہوتے تھے جو اہل عرب کے ہاں شراب بنانے اور شراب رکھنے کے کام میں آتے تھے۔ چونکہ شراب حرام ہوچکی تھی اس لئے ان برتنوں کے استعمال سے بھی منع فرما دیا گیا تاکہ اس سے شراب کی موجودگی یا شراب کے استعمال کا شبہ نہ ہو سکے مگر جب بعد میں شراب کی حرمت مسلمانوں کے دلوں میں پختگی کے ساتھ بیٹھ گئی اور برتنوں کے بارہ میں یہ احتمال نہ رہا کہ یہ برتن خاص طور پر شراب ہی کے لئے بنائے جاتے ہیں تو ان کا استعمال مباح قرار دیا گیا، لہٰذا اب یہ حکم منسوخ مانا جائے گا؛