عورتوں کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان
راوی:
وعن أبي سعيد الخدري قال خرج رسول الله صلى الله عليه و سلم في أضحى أو فطر إلى المصلى فمر على النساء فقال يا معشر النساء تصدقن فإني أريتكن أكثر أهل النار فقلن وبم يا رسول الله قال تكثرن اللعن وتكفرن العشير ما رأيت من ناقصات عقل ودين أذهب للب الرجل الحازم من إحداكن قلن وما نقصان ديننا وعقلنا يا رسول الله قال أليس شهادة المرأة مثل نصف شهادة الرجل قلن بلى قال فذلك من نقصان عقلها أليس إذا حاضت لم تصل ولم تصم قلن بلى قال فذلك من نقصان دينها ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم )
" اور ابوسعید خدری ( آپ کا اصل نام سعد بن مالک بن شیبان ہے، ابوسعید آپ کی کنیت ہے اور خدری کی نسبت سے مشہور ہیں۔ ٧٤ میں جمعہ کے روز ٨٤ سال کی عمر میں آپ کا انتقال ہوا۔) راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک مرتبہ) عید الفطر یا بقر عید کی نماز کے لئے عیدگاہ تشریف لائے تو عورتوں کی ایک جماعت کے پاس بھی تشریف لے گئے۔ ( جو نماز کے لئے ایک الگ گوشہ میں جمع تھیں) اور ان کو مخاطب کر کے فرمایا " اے عورتوں کی جماعت! تم صدقہ و خیرات کرو کیونکہ میں نے تم سے اکثر کو دوزخ میں دیکھا ہے " (یہ سن کر) ان عورتوں نے کہا، یا رسول اللہ ! اس کا سبب؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " تم لعن و طعن بہت کرتی ہو اور اپنے شوہروں کی نافرمانی و ناشکری کرتی رہتی ہو اور میں نے عقل و دین میں کمزور ہونے کے باوجود ہوشیار مرد کو بے وقوف بنا دینے میں تم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا " (یہ سن کر) ان عورتوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! ہماری عقل اور ہمارے دین میں کیا کمی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ایک عورت کی گواہی آدھے مرد کی گواہی کے برابر نہیں ہے (یعنی کیا ایسا نہیں ہے۔ کہ شریعت میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر سمجھی جاتی ہے) انہوں نے کہا، جی ہاں ایسا ہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اس کی وجہ عورت کی عقل کی کمزوری ہے اور کیا ایسا نہیں ہے کہ جس وقت عورت حیض کی حالت میں ہوتی ہے تو نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے، انہوں نے کہا جی ہاں ایسا ہی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ یہ اس کے دین میں نقصان کی وجہ ہے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم )
تشریح
اسلام کے ابتدائی زمانہ میں عورتیں بھی مردوں کے ساتھ ہی مسجد میں نماز ادا کرتی تھیں اس لئے عیدالفطر یا بقر عبد کی نماز کے لئے بھی عورتیں عیدگاہ آئیں تھیں اور چونکہ وہ الگ ایک کونہ میں بیٹھی ہوئی تھیں اور خطبہ کی آواز ان تک نہیں پہنچی تھی، اس لئے ضروری ہوا کہ احکام اور دینی ضروریات کی باتیں ان تک پہنچائی جائیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان کو وعظ و نصیحت سے مشرف فرمایا۔
اکثر عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ جہاں ایک دو مل کر بیٹھیں، کسی تقریب یا عورتوں کے مجمع میں پہنچیں بس ایک دوسرے کی غیبت کرنا، دنیا بھر کی برائی و بھلائی بیان کرنا اور لعن و طعن کی بوچھاڑ کرنا شروع کر دیتی ہیں اور پھر ان کا زیادہ تر وقت ان خرافاتی باتوں میں گزرتا ہے۔ اسی طرح یہ بڑا روگ بھی ان عورتوں میں پایا جاتا ہے کہ ان کا شوہر ان کی آسائش اور ان کے راحت و آرام کے لئے کتنے ہی پاپڑ بیلے، کتنی ہی مشقت و محنت کر کے ان کی ضروریات کی تکمیل کرے۔ اور ان کو خوش رکھنے کے لئے کتنی ہی مصیبتیں اٹھائے مگر ان کی زبان سے کبھی بھی شوہروں کا شکر ادا نہیں ہوتا، ہمیشہ ناشکری ہی کے الفاظ ان کی زبان سے نکلتے ہیں، رہی شوہروں کی نافرمانی کی بات تو یہ برائی بھی عورتوں میں کچھ کم نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام باتیں عورتوں کے ایک بہت بڑے عیب کی غمازی کرتی ہیں۔ جس سے ان کے آخرت تباہ ہوتی ہے اور جو ان کو اللہ کے عذاب کا مستوجب بناتا ہے، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس خاص عیب کی نشان دہی فرمائی اور ان سے فرمایا کہ تمہارے اندر اس قسم کی جو باتیں ہیں ان کو ہلکا مت جانو، بلکہ یہ وہ گناہ ہیں جن کی وجہ سے اللہ کا عذاب تم پر ہوگا اور تم قہر خدواندی میں گرفتار ہو کر دوزخ میں دھکیل دی جاؤ گی اور تمہاری ان ہی باتوں کے سبب دوزخ میں تم عورتوں کی تعداد مردوں کی بنسبت زیادہ ہوگی، لہٰذا تم صدقہ و خیرات کرتی رہا کرو تاکہ ایک طرف تو اس کی برکت سے تمہارے اندر ان باتوں کی کمی آئے اور یہ عیب جاتا رہے دوسری طرف اللہ کی رحمت تمہاری طرف متوجہ ہو اور تمہارے گناہوں کی بخشش ہو۔
لعن (طعن) کے معنی ہیں ، اللہ کی رحمت سے دور کرنا، حدیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ کسی کو لعن طعن کرنا انتہائی بری حرکت ہے چنانچہ شریعت کا حکم ہے کہ کسی آدمی کو متعین کر کے اس پر لعنت نہ بھیجی جائے چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ کسی متعین کافر پر لعنت بھیجنے کی ممانعت اس بنا پر ہے کہ نہیں کہا جاسکتا کہ کب اس کو ایمان و اسلام کی توفیق ہو جائے اور وہ کفر و شرک کی لعنت سے نکل کر اللہ کی رحمت کے سایہ میں آجائے۔ ہاں جو آدمی کفر کی حالت میں مر گیا ہو اور اس کا کفر پر مرنا یقینی طور پر معلوم ہو تو اس پر لعنت بھیجی جا سکتی ہے اسی طرح نفس برائی پر لعنت بھیجی جا سکتی ہے یا یوں کہا جاسکتا ہے کہ کفر پر اللہ کی لعنت یا یہ کہ کافروں پر اللہ کی لعنت۔
عورتوں میں" عقل کی کمی" یا ان کے " دینی نقصان" کا اظہار عورتوں کی تحقیر کے لئے ہرگز نہیں ہے بلکہ قدرت کے اس تخلیقی توازن کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہے جو مردوں اور عورتوں کے درمیان جسمانی و طبعی فرق صنفیت کی بنیاد ہے اور یہ فرق صنفیت دراصل فطرت کا تقاضا ہے جس کے بغیر نوع انسانی کا ذاتی و معاشرتی نظام زندگی برسر اعتدال نہیں رہ سکتا، خالق کائنات نے جسمانی، طبعی، عقلی اور دینی طور پر مرد کو عورت کی بہ نسبت جو برتر درجہ دیا ہے اور جس کا ثبوت اس حدیث سے واضح ہے وہ انسانی معاشرہ کے اعتدال و توازن کی برقراری کے لئے ہے نہ کہ شرف انسانیت میں کسی فرق کے اظہار کے لیے، اس شرف میں مرد و عورت دونوں کی یکساں حیثیت ہے اور دونوں مساوی درجہ رکھتے ہیں۔