نیکی کا اجر
راوی:
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا اَحْسَنَ اَحَدُکُمْ اِسْلَامَہُ فَکُلُّ حَسَنَۃٍ ےَّعْمَلُھَا تُکْتَبُ لَہُ بِعَشْرِ اَمْثَالِھَا اِلٰی سَبْعِ مِائَۃِ ضِعْفٍ وَّکُلُّ سَےِّئَۃٍ ےَّعْمَلُھَا تُکْتَبُ بِمِثْلِھَا حَتّٰی لَقِیَ اللّٰہُ ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
" اور حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخض (صدق دل اور اخلاص نیت کی بنا پر) اپنے ایمان کو اچھا بنا لیتا ہے تو وہ بھی جو نیک عمل کرتا ہے اس پر اس کے اعمالنامہ میں اس جیسی دس سے لے کر سات سو تک نیکیوں کا زائد اجر لکھا جاتا ہے اور وہ جو برا عمل کرتا ہے اس پر اس کے نامہ اعمال میں اس ایک ہی عمل کا گناہ لکھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اللہ سے ملاقات کرے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم )
تشریح
اس امت کو اللہ نے اس فضل و کرم اور خصوصی احسان کے تحت جن خاص انعامات سے نوازا ہے ان میں سے ایک بہت بڑا انعام یہ بھی دیا ہے کہ جب کوئی آدمی مخلص اور صادق مومن نیک عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت بے حساب اس کا اجر صرف اسی ایک عمل کے برابر دینے پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ اس جیسے دس عمل کا ثواب اس کو دیا جاتا ہے اور اس پر بھی بس نہیں ہوتا بلکہ جوں جوں ایمان میں صدق و استقامت اور عمل میں خلوص و نیک نیتی بڑھتی جاتی ہے اسی قدر اجر و انعامات بھی بڑھتے جاتے ہیں ۔ چنانچہ ایک ہی نیک عمل پر سات سو تک بلکہ اس سے بھی زیادہ اجر عنایت فرمائے جاتے ہیں، بلکہ بعض حالات میں تو یہ اضافہ سینکڑوں اور ہزاروں کی حد سے بھی تجاوز ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ اگر حرم پاک میں کوئی نیک عمل کیا جائے تو اس مقدس جگہ کی عظمت و فضیلت کے طفیل میں اس پر ایک لاکھ اجر لکھے جاتے ہیں۔ اس کے برخلاف اگر مومن سے بتقضائے بشریت کوئی برائی سرزد ہو جاتی ہے تو اس کا گناہ اضافہ کے ساتھ نہیں لکھا جاتا بلکہ جیسی برائی سرزد ہوتی ہے ویسا ہی یا اتنا ہی گناہ لکھا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کے اس احسان کرم کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔