ایمان و اسلام کی باتیں
راوی:
وَعَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَۃَ قَالَ اَتَیْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلمفَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ مَن مَّعَکَ عَلٰی ھٰذَا الْاَمْرِ قَالَ حُرٌّ و عَبْدٌ قُلْتُ مَا الْاِسْلَامُ قَالَ طِیْبَ الْکَلَامِ وَ اِطْعَامُ الطَّعَامِ قُلْتُ مَا الْاِیْمَانُ قَالَ الصَبْرُوَ السَّمَا حْۃُ قَالَ قُلْتُ اَیُّ الْاِسْلَامِ اَفْضَلُ قَالَ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہٖ وَیَدِہٖ قَالَ قُلْتُ اَیُّ الْاِیْمَانِ اَفْضَلُ قَالَ خُلْقٌ حَسَنٌ قَالَ قُلْتُ اَیُّ الصَّلَاۃِ اَفْضَلُ قَاَل طُوْلُ الْقُنُوْتِ قَالَ قُلْتُ اَیُّ لْھِجْرَۃِ اَفْضَلُ قَالَ اَنْ تَھْجُرَ مَاکَرِہَ رَبُکَ قَاَل قُلْتُ فَاَیُّ الْجِھَادِ اَفْضَلُ قَالَ مَنْ عُقِرَ جَوَادُہُ وَاُھْرِیْقَ دَمُہ، قَاَل قُلْتُ اَیُّ السَّاعَاتِ اَفْضَلُ قَاَل جَوْفُ اللَّیْلِ الْاٰخِرُ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل)
" حضرت عمرو بن عبسہ (آپ کا نام عمرو ہے عنبسہ کے بیٹے ہیں اور ابونجیح آپ کی کنیت ہے ۔ اور حضرت علی کے دور خلاف میں انتقال فرمایا۔) راوی ہیں کہ میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! دعوت اسلام کے آغاز میں ، اس دین (اسلام ) پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کون تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک آزاد (ابوبکر) اور ایک غلام (بلال) میں نے عرض کیا اسلام کی علامت کیا ہے؟ فرمایا پاکیزہ کلامی اور (مساکین کو) کھانا کھلانا، میں نے عرض کیا ایمان کی باتیں کیا ہیں؟ فرمایا! " صبر اور سخاوت" (یعنی بری باتوں سے باز رہنا اور طاعت فرمانبرداری پر مستعد ہونا) میں نے کہا کون سا مسلمان بہتر ہے ؟ فرمایا جس کی زبان اور ہاتھ ( کی ایذاء) سے مسلمان محفوظ رہیں، میں نے کہا : ایمان میں بہتر کیا چیز ہے؟ فرمایا " یہ کہ تم اس چیز کو چھوڑ دو جس سے تمہارا پروردگار ناخوش ہوتا ہے میں نے کہا جہاد میں افضل کون ہے! فرمایا وہ آدمی افضل ہے جس کا گھوڑا مارا جائے اور خود بھی شہید ہو جائے۔ میں نے کہا : سب سے افضل کون سا وقت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نصف شب کا آخری حصہ۔ " (مسند احمد بن حنبل)