مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 47

والدین کی نا فرمانی اور جھوٹی قسم کھانا

راوی:

وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرٍورَضِیَ اللّٰہ عَنْہُمَا قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَلْکَبَائِرُ الْاِشْرَاکُ بِاللّٰہِ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَےْنِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَالْےَمِےْنُ الْغَمُوْسُ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ وَفِی رِوَاےَۃِ اَنَسٍ وَّشَھَادَۃُ الزُّوْرِ بَدَلَ الْےَمِےْنِ الْغَمُوْسِ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)

" اور حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمائی کرنا، ناحق کسی کو مار ڈالنا اور جھوٹی قسم کھانا بڑے گناہ ہیں (صحیح البخاری) اور حضرت انس کی روایت میں " جھوٹی قسم کھانا " کے بجائے" جھوٹی گواہی دینا " کی الفاظ ہیں۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

تشریح
" عقوق" کے ایک معنی ایذاء دینے کے بھی آتے ہیں، لہٰذا شریعت نے نہ صرف یہ کہ والدین کی نافرمانی کو بڑا گناہ قرار دیا ہے بلکہ یہ بھی حکم ہے کہ مسلمان ماں باپ کو نہ کوئی اذیت پہنچائی جائے اور نہ ان کو ناحق ستایا جائے، ویسے کافر ماں باپ کو بھی اذیت پہنچانے سے روکا گیا ہے، لیکن ان کو کفر کی لعنت سے نکالنے اور قبول اسلام پر آمادہ کرنے کے لئے ان کے ساتھ تھوڑے بہت سخت برتاؤ کی اجازت ہے، بشرطیکہ وہ سخت برتاؤ قطعی طور پر ناگزیر ہو اور اخلاق و انسانیت سے گرا ہوا نہ ہو۔
تفسیر عزیزی میں ارشاد ربانی (ا یت وبالو الدین احسانا) کی تفیسر میں لکھا ہے کہ ماں باپ کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کا حکم بطور خاص تین باتوں کو شامل ہے ، اور یہ کہ ان کو کسی قسم کی اذیت نہ پہنچائے خواہ ہاتھ سے ہو یا زبان وغیرہ سے ، یعنی نہ تو ان کو مار پیٹ کر تکلیف پہنچائے اور نہ ان کے ساتھ بد زبانی و بدکلامی کرے، دوسرے یہ کہ جہاں تک ممکن ہو سکے جان و مال دونوں طرح سے ان کی خدمت کرے، اور تیسرے یہ کہ ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرے اور وہ جس وقت اور جس ضرورت سے بلائیں فوراً ان کے پاس حاضر ہو جائے۔ تاہم علماء نے یہ وضاحت بھی کر دی ہے کہ والدین کی خدمت کا حکم اس شرط کے ساتھ ہے کہ اگر ماں باپ اولاد کے محتاج ہوں اور اولاد اتنی قوت و استطاعت رکھتی ہو کہ ان کی ہر طرح کی خدمت کر سکے تو ان کی خدمت کرنا اس پر واجب ہے اور اگر یہ صورت ہو کہ نہ تو والدین اس کے محتاج ہوں اور نہ اولاد اس پر قادر ہے تو اس پر ان کی خدمت واجب نہیں اسی طرح والدین کی حکم برداری کا مسئلہ بھی اس وضاحت کے ساتھ ہے کہ اگر وہ اچھے کام کا حکم دیں یا خلاف شرع چیزوں سے روکیں یا شرع کے خلاف حکم نہ دیں تو ان کی اطاعت کرنا ضروری ہے لیکن اگر وہ خلاف شرع چیزوں کا حکم دیں مثلاً واجبات کو ترک کرنے کے لئے کہیں یا فرض حج کرنے سے روک دیں اور منع کریں تو ان چیزوں میں ان کی اطاعت نہ کرنی چاہیے اگر سنت موکدہ کو چھوڑنے کے لئے کہیں مثلاً نماز کی جماعت میں شریک ہونے سے روکیں، یا عرفہ کے روزہ کو منع کریں تو اس میں زیادہ صحیح قول یہ ہے اس طرح کا حکم دو ایک مرتبہ مان لینے اور ان کی اطاعت میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ان چیزوں کی اگر وہ عادت ہی ڈلوا دیں یا ہمیشہ منع کرتے رہیں تو ان کا حکم نہ مانے۔ ہاں اگر وہ کسی نفلی عبادت سے روکیں اور کہیں کہ اس کی بجائے ہماری خدمت میں رہو تو ان کی حکم برداری کرنی چاہئے۔
" یمین غموس" اس جھوٹی قسم کو کہتے ہیں جس کا تعلق گذشتہ چیز سے ہو، مثلاً کوئی آدمی کسی فعل کے بارہ میں اس طرح قسم کھائے کہ اللہ کی قسم میں نے فلاں کام نہیں کیا ہے۔ درآنحالیکہ واقع میں اس نے وہ کام کیا ہے تو یہ " یمین غموس" کہلائے گی اس کی سخت ممانعت ہے کیونکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے اسی طرح جھوٹی گواہی دینا بھی ایک بہت بڑا گناہ ہے جو اللہ کے سخت عذاب کا مستوجب بناتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں