مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 65

ولادت کے وقت بچہ کا رونا شیطانی عمل کا نتیجہ ہوتا ہے

راوی:

وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَا مِنْ بَنِیْ اٰدَمَ مَوْلُوْدٌ اِلَّا ےَمَسُّہُ الشَّےْطَانُ حِےْنَ ےُوْلَدُ فَےَسْتَھِلُّ صَارِخًا مِّنْ مَسِّ الشَّےْطَانِ غَےْرَ مَرْےَمَ وَابْنِھَا۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)

" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی آدم کے یہاں جو بھی بچہ پیدا ہوتا ہے شیطان اس کو چھوتا ہے جس کی وجہ سے بچہ چیخ اٹھتا ہے لیکن ابن مریم (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) اور ان کی ماں کو شیطان نے نہیں چھوا۔" (صحیح البخاری و مسلم)

تشریح
شیطان کے چھونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ولادت کے وقت بچہ کی کوکھ میں اپنی انگلیاں اس طرح مارتا ہے کہ بچہ تکلیف محسوس کرتا ہے اور چلا چلا کر رونے لگتا ہے۔ اس شیطانی ایذاء کا شکار ہر بچہ ہوتا ہے ۔ صرف حضرت مریم علیہ السلام اور ان کے بیٹے
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس شیطانی عمل سے محفوظ رہے تھے ان دونوں کا محفوظ رہنا بظاہر اس دعا کی مقبولیت کا نتیجہ تھا جو حضرت مریم کی والدہ نے کی تھی اور جس کو قرآن نے یوں نقل کیا ہے۔
(ا یت اِنِّیْ اُعِیْذُھَابِکَ وَذُرِّیَّتَھَا مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ۔ (ال عمران٣٦)
" (اے خدا) میں اس مریم کو اس کی اولاد کو شیطان مردود سے آپ کی پناہ دیتی ہوں۔"
یہاں یہ اشکال بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اگر شیطان کو اتنی قدرت ہو تو وہ سب کو ہلاک کر دے۔ کیونکہ شیطان کو صرف اتنی ہی قدرت دی گئی ہے وہ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کرسکتا اور نہ اس کے اختیار میں ہے کہ وہ کسی کو اس سے زیادہ تکلیف پہنچا کر ہلاک کر دے، دوسرے شیطان کے مقابلہ میں ملائکہ بھی تو ہوتے ہیں جو نگہبانی کرتے ہیں اس لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کو جتنی قدرت دی گئی ہے اس سے تجاوز کر جائے اور اپنے کسی مہلک ارادہ میں کامیاب ہو جائے۔

یہ حدیث شیئر کریں