اپنے اندر نیکی کی تحریک پر اللہ کا شکر ادا کرو اور شیطان کی وسوسہ اندازی کے وقت اللہ کی پناہ چاہو
راوی:
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ لِلشَّیْطَانِ لَمَّۃً بِاِبْنِ اٰدَمَ وَلِلْمَلَکِ لَمَّۃً فَامَّا لَمَّۃُ الشَّیْطَانِ فَاِیْعَادٌ بِالشَّرِّوَ تَکْذِیْبٌ بِالْحَقِّ وَاَمَّا لَمَّۃُ الْمَلَکِ فَاِیْعَادٌ باِلْخَیْرِوَ تَصْدِیْقٌ بِالْحَقِّ فَمَنْ وَجَدَ ذٰلِکَ فَلْیَعْلَمْ اَنَّہ، مِنَ اﷲِ فَلْیَحْمَدِ اﷲَ وَمَنْ وَجَدَ الْاُخْرٰی فَلْیَتَعَوَّذْ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطَانِ لرَّجِیْمِ ثُمَّ قَرَأَ الشَّیْطَانُ یَعِدُکُمْ الْفَقْرَوَیَأمُرُکُمْ بِالْفَحْشَائِ(البقرۃ٢٦٨) رَوَاہُ الْتِرْمِذِیُّ وَقَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ۔
" اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا! حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان پر ایک تصرف تو شیطان کا ہوا کرتا ہے اور ایک تصرف فرشتہ کا شیطان کا تصرف تو یہ ہے کہ وہ برائی پر ابھارتا ہے اور حق کو جھٹلاتا ہے اور فرشتہ کا تصرف یہ ہے کہ وہ نیکی پر ابھارتا ہے اور حق کی تصدیق کرتا لہٰذا جو آدمی (نیکی پر فرشتہ کے ابھارنے کی) یہ کیفیت اپنے اندر پائے تو اس کو سمجھنا چاہیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے (ہدایت) ہے اس پر اس کو اللہ کا شکر بجا لانا چاہیے اور جو آدمی دوسری کیفیت (یعنی شیطان کی وسوسہ اندازی ) اپنے اندر پائے تو اس کو چاہیے کہ شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کرے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قرآنی آیت پڑھی (جس کا ترجمہ ہے) شیطان تمہیں فقر سے ڈراتا ہے اور گناہ کے لئے اکساتا ہے۔ اس روایت کو جامع ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔"
تشریح
فرشتہ کے ابھارنے کا مطلب تو یہ ہے کہ وہ نیکی کی اہمیت اور نیکی پر ملنے والے اجر و انعام کی کشش ظاہر کرتا ہے اور انسان کے احساس و شعور میں یہ بات ڈالتا ہے کہ اللہ کا سچا دین ہی انسانیت کی بقا و ترقی کا ضامن ہے اللہ کے رسول جو شریعت لے کر آئے ہیں اسی میں بنی آدم کی دنیاوی اور آخروی نجات پوشیدہ ہے۔ اگر اپنی فلاح و نجات چاہتے ہو تو برائی کے راستہ سے بچو اور نیکی کے راستہ کو اختیار کرو۔ شیطان کا ابھارنا یہ ہوتا ہے کہ وہ راہ حق کو تاریک کر کے دکھاتا ہے وسوسہ اندازی کے ذریعہ دین کی بنیادی باتوں مثلاً تو حید، نبوت آخرت اور دوسرے معتقدات میں تردد و تشکیک پیدا کرتا ہے۔ نیکی کو بدنما صورت میں اور بدی کو اچھی شکل و صورت میں پیش کرتا ہے، انسانی دماغ یہ میں بات بٹھانے کی سعی کرتا ہے کہ اگر ان چیزوں کو اختیار کرو گے جو نیکی سے تعبیر کی جاتی ہیں تو پریشانیاں اٹھاؤ گے، تکلیفیں، برداشت کرو گے، مثلاً توکل و قناعت کی زندگی اختیار کرو گے اور اپنے اوقات کو دنیا سازی میں صرف کرنے کی بجائے اللہ کی عبادت اور دین کی خدمت میں لگاؤ گے تو تم نہ مال دولت حاصل کر پاؤ گے اور نہ دنیا کی کوئی آسائش و راحت اٹھا پاؤ گے، الٹے فقر و محتاجگی میں مبتلا ہو جاؤ گے۔