تقدیر پر ایمان لانے کا بیان
راوی:
وَعَنْ عِمْرَا نَ بْنِ حُصَےْنٍ ث اَنَّ رَجُلَےْنِ مِنْ مُّزَےْنَۃَ قَالَا ےَارَ سُوْلَ اللّٰہِ اَرَءَ ےْتَ مَا ےَعْمَلُ النَّاسُ الْےَوْمَ وَےَکْدَحُوْنَ فِےْہِ اَشَیْءٌ قُضِیَ عَلَےْھِمْ وَمَضٰی فِےْھِمْ مِّنْ قَدَرٍ سَبَقَ اَوْ فِےْمَا ےَسْتَقْبِلُوْنَ بِہٖ مِمَّا اَتٰھُمْ بِہٖ نَبِےُّھُمْ وَثَبَتَتِ الْحُجَّۃُ عَلَےْھِمْ فَقَالَ لَا بَلْ شَےْئیٌ قُضِیَ عَلَےْھِمْ وَمَضٰی فِےْھِمْ وَتَصْدِےْقُ ذالِکَ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ ''وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰھَا فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا''۔(پ٣٠۔ر کوع ١٦) (صحیح مسلم)
" اور حضرت عمران بن حصین ( آپ کا اسم گرامی عمران ابن حصین اور کنیت ابونجید ہے آپ فتح خیبر کے سال اسلام کی نعمت سے مشرف ہوئے تھے بمقام بصرہ٥١ھ میں وفات پائی۔) راوی ہیں کہ ایک مرتبہ قبیلہ مزینہ کے دو آدمی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! ہمیں یہ بتائیے کہ آج (دنیا میں) لوگ عمل کرتے ہیں اور اعمال کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ کیا یہ وہی چیز ہے جس کا حکم ہو چکا ہے اور نوشتہ تقدیر بن چکا ہے یا یہ عمل ان احکام کے موافق ہیں جو آئندہ ہونے والے ہیں جن کو اس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم لایا ہے اور جن پر دلیل قائم ہو چکی ہے" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " نہیں یہ وہی چیز ہیں جس کا فیصلہ ہو چکا ہے اور نوشتہ تقدیر بن چکا ہے اور اس کی تصدیق کتاب اللہ کی اس آیت سے ہوتی ہے وَنَفْسِ وَّمَا سَوّٰھَا فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوَاھَا (القران الحکیم، پارہ ۳۰۔رکوع ١٦)۔ قسم ہے (انسان کی) جان کی اور اس (ذات) کی جس نے اس کو بنایا پھر اس کی بد کرداری اور پرہیزگاری (دونوں کا) القاء کیا۔" (صحیح مسلم)
تشریح
سوال یہ تھا کہ یا رسول اللہ ہمیں یہ بتلا دیجئے کہ دنیا میں لوگ جتنے اعمال کرتے ہیں خواہ وہ اعمال خیر ہوں یا عمال بد کیا یہ وہی ہیں جو ان کے لئے ازل ہی میں مقدر ہو چکے تھے اور اب وقت پر وقوع پذیر ہوتے ہیں یا یہ وہ چیزیں ہیں جو ازل میں تو ان کے لئے نوشتہ تقدیر نہیں بنی تھیں بلکہ اب جب رسول آئے اور انہوں نے اللہ کی جانب سے دیئے گئے معجزات کے ذریعہ اپنی صداقت کا اعلان اور ان احکام و اعمال کے کرنے کا حکم دیا تو یہ اعمال وقوع پذیر ہونے لگے تو ایسی شکل میں کیا یہ کہا جائے گا کہ یہ اعمال بندوں کے مقدر میں پہلے سے نہیں لکھے ہوئے تھے بلکہ اپنے اختیار سے یہ اعمال کرتے ہیں چاہے وہ اچھے اعمال ہوں یا برے اعمال؟
بارگاہ رسالت سے جواب دیا گیا کہ یہ اعمال وہی ہیں جو ازل ہی سے بندوں کے مقدر میں لکھ دیئے گئے ہیں اور اب اسی نوشتہ تقدیر کے مطابق اپنے اپنے وقت پر صادر ہوتے رہتے ہیں۔