تقدیر پر ایمان لانے کا بیان
راوی:
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَتَنَازَعُ فِی الْقَدْرِ فَغَضِبَ حَتّٰی اِحْمَرَّ وَجْھُہ، حَتّٰی کَاَنَّمَا فُقِئَ فِیْ وَجْنَتَیْہِ حَبُّ الرُّمَّانِ فَقَالَ اَبِھٰذَا مُرِتْمُْ اَ ْم بِھٰذَا اُرْسِلْتُ إِلَیْکُمْ اِنَّمَا ھَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ حَیْنَ تَنَازَعُوْا فِیْ ھٰذَا الْاَمْرِ عَزَمْتُ عَلَیْکُمْ عَزَمْتُ عَلَیْکُمْ اَن لَّا تَنَازَعُوْا فِیْہِ رَوَاہُ التِّرْمَذِیُّ وَرَوَی ابْنُ مَاجَۃَ نَحْوَہ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبِ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ۔
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک دن) ہم قضا و قدر کے مسئلہ پر بحث کر رہے تھے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے (ہمیں اس مسئلہ میں الجھا ہوا دیکھ کر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور غصہ کی وجہ سے سرخ ہوگا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا انار کے دانے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار مبارک پر نچوڑ دیئے گئے ہیں ( اسی حالت میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں اس چیز کا حکم دیا گیا ہے اور میں اسے لئے تمہارے پاس (رسول بنا کر بھیجا) گیا ہوں؟ جان لو! تم سے پہلے کے لوگ اس لئے ہلاکت کی وادی میں پھینک دئیے گئے کہ انہوں نے اس سلسلہ میں الجھنا اپنا مشغلہ بنا لیا تھا لہٰذا میں تمہیں بات کی قسم دیتا ہوں (اور پھر دوبار) قسم دیتا ہوں کہ تم اس مسئلہ پر بحث نہ کیا کرو (جامع ترمذی ) اور ابن ماجہ نے اسی طرح کی روایت عمر و بن شعیب سے نقل کی ہے جو انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے دادا سے روایت کی ہے" ۔
تشریح
صحابہ آپس میں تقدیر کے مسئلہ پر بحث کر رہے تھے بعض صحابہ تو یہ کہہ رہے تھے کہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ ہی کی جانب سے نوشتہ تقدیر کے مطابق ہیں تو پھر ثواب و عذاب کا ترتب کیوں ہوتا ہے؟ جیسا کہ معتزلہ کا مذہب ہے اور کچھ حضرات یہ کہہ رہے تھے کہ اس میں اللہ کی کیا مصلحت و حکمت ہے کہ بعض انسانوں کو تو جنت کے لئے پیدا کیا اور بعض انسانوں کو دوزخ کے لئے پیدا کیا ہے؟ کچھ صحابہ نے اس کا جواب دیا کہ یہ اس لئے ہے کہ انسانوں کو کچھ اختیارات بھی اعمال کے کرنے اور نہ کرے کا دے دیا ہے ، کچھ نے کہا یہ اختیار کس نے دیا؟
بہر حال اس قسم کی گفتگو ہو رہی تھی اور اپنی عقل و دانش کے بل بوتہ پر اللہ کے اس رازو مصلحت کے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کو اس بحث مباحثہ میں مشغول پایا تو غصہ و غضب سے چہرہ مقدس سرخ ہوگیا اس لئے صحابہ کو بتلا دیا گیا کہ یہ تقدیر کا مسئلہ اللہ کا ایک راز و بھید ہے جو کسی پر ظاہر نہیں کیا گیا ہے لہٰذا اس میں اپنی عقل لڑانا اور غور و تحقیق گمراہی کی راہ اختیار کرنا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس لئے دنیا میں نہیں بھیجا گیا ہوں کہ تقدیر کے بارہ میں بتاؤں اور تم اس میں بحث و مباحثہ کرو، میری بعثت کا مقصد صرف یہ ہے کہ اللہ و تعالیٰ کے احکام تم لوگوں تک پہنچا دوں اور اطاعت فرمانبرداری کی راہ پر تمہیں لگاؤں۔ دین و شریعت کے فرائض و اعمال کے کرنے کا تمہیں حکم دوں، لہٰذا ایک سچے و مخلص ہونے کے ناطے پر صرف اتنا ہی فرض ہے کہ تم ان احکام فرائض پر عمل کرو اور جن اعمال کے کرنے کا تمہیں حکم دوں اس کی بجا آوری میں لگے رہو، تم اس تقدیر کے مسئلہ میں مت پڑو پس اتنا ہی اعتقاد تمہارے لئے کافی ہے کہ یہ اللہ کا ایک راز ہے جس کی حقیقت و مصلحت وہی جانتا ہے ، اس کو اسی کی مرضی پر چھوڑ دو۔
آخر حدیث میں صاحب مشکوۃ نے ابن ماجہ کی اسی طرح کی روایت کردہ حدیث کی سند کا ذکر کیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حدیث شعیب نے اپنے دادا سے نقل کی ہے جو عبداللہ بن عمرو بن العاص ہیں اور شعیب سے ان کے صاحبزادے عمرو روایت کرتے ہیں اس طرح" عن ابیہ" کی ضمیر عمرو بن شعیب کی طرف راجع ہوگی اور " عن جدہ" کی ضمیر شعیب کی طرف راجع ہوگی اس لئے کہ عمر اپنے دادا سے روایت نہیں کرتے ہیں کیونکہ ان کے دادا محمد بن عبداللہ سے وہ روایت منقول نہیں ہے، یہ سلسلہ نسب اس طرح ہے عمر بن شعیب بن محمد بن عبداللہ بن عمرو بن العاص۔
اس کی فائدہ اس لئے یہاں ضروری ہے کہ دوسری احادیث میں اس طرح کی عبارات میں" عن جدہ" کی ضمیر عمرو بن شعیب کی طرف راجع ہوتی ہے لیکن یہاں سے اس کے برخلاف ہے۔