مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 100

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

راوی:

وَعَنْ عَلِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتّٰی یُؤْمِنَ بِاَرْبَعِ یَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَاَنِّیْ رَسُوْلُ اﷲِ بَعَثَنِیْ بِالْحَقِّ وَیُؤْمِنْ بِالْمَوْتِ وَ الْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَیُؤْمِنُ بِالْقَدْرِ۔ (رواہ التہ مذی وابن ماجۃ)

" اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوتا جب تک کہ وہ چار چیزوں پر ایمان نہ لائے۔ (١) اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ (٢) اور میں بلاشبہ اللہ کی جانب سے بھیجا ہوا رسول ہوں اور حق (دین اسلام) لے کر اس دنیا میں آیا ہوں۔ (٣) موت اور مرنے کے بعد (میدان حشر میں) اٹھنے پر ایمان لانا۔ (٤) اور تقدیر پر ایمان لانا۔ " (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)

تشریح
موت پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کو یقینی جانے کہ اس دنیا کی تمام زندگی عارضی اور فانی ہے جو اپنے وقت پر ختم ہو جائے گی۔ اور اس دنیا میں جو کچھ ہے سب ایک دن فنا کے گھاٹ اتر جائے گا یا اس سے یہ مراد ہے کہ اس بات پر صدق دل سے یقین و اعتقاد رکھا جائے کہ موت کا ایک دن مقرر ہے اور وہ خداوند کے حکم سے آتی ہے کوئی بیماری، حادثہ یا تکلیف موت کا حقیقی سبب نہیں ہے بلکہ یہ چیزیں بادی النظر میں ظاہری اسباب ہوتے ہیں کسی انسان کی زندگی اور موت کلیۃً اللہ کے ہاتھ میں ہے جب تک اس کا حکم ہوتا ہے زندگی رہتی ہے اور جب وہ چاہتا ہے موت بھیج کر زندگی ختم کر دیتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں