تقدیر پر ایمان لانے کا بیان
راوی:
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسِ قَالَ قَالَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صِنْفَانِ مِنْ اُمَّتِیْ لَیْسَ لَھُمَا فِی الْاِسْلَامِ نَصِیْبٌ اَلْمُرْجِئَۃُ وَالْقَدَرِیَّۃُ رَوَاہُ الْتِّرْمِذِیُّ وَقَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ۔
" اور حضرت عبداللہ ابن عباس راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت میں دو فرقے ایسے ہیں جن کو اسلام کا کچھ بھی حصہ نصیب نہیں ہے اور وہ" مرجیہ و قدریہ" ہیں، جامع ترمذی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔"
تشریح
اسلام میں ایک گروہ" مرجیہ" کے نام سے مشہور ہے، یہ فرقہ اعمال کے سلسلہ میں اسباب کا قائل نہیں ہے بلکہ یہ کہتا ہے کہ کسی عمل اور فعل کی نسبت بندہ کی جانب ایسی ہی ہے جیسے کسی فعل کی نسبت جمادات کی طرف کر دی جائے یعنی جس طرح ایک لکڑی پتھر، روڑہ ہے کہ اس کو جس طرف پھینک دیجئے یا جدھر کو لڑھکا دیجئے وہ لڑھکتا چلا جائے گا اس کو اپنے پھینکے جانے اور لڑھکائے جانے میں کوئی دخل و اختیار نہیں ہے، بلکہ وہ پھینکنے والے اور لڑھکانے والے کے قبضہ و قدرت میں ہے، اسی طرح ایک بندہ ہے کہ اس کو اپنے کسی عمل اور فعل میں کوئی دخل اور اختیار نہیں ہے بلکہ وہ محض اور بے اختیار ہے، قدرت اس سے جیسے عمل صادر کراتی ہے وہ کرتا ہے وہ نہ کسی عمل کے از خود کرنے پر قادر ہے اور نہ کسی عمل سے باز رہنا اس کے اختیار میں ہے۔
اس کے مد مقابل ایک دوسرا فرقہ " قدریہ" ہے جو سرے سے تقدیر ہی کا منکر ہے، اس جماعت کا مسلک یہ ہے کہ بندہ کے اعمال میں تقدیر الہٰی کا کوئی دخل نہیں ہے بلکہ بندہ خود اپنے اعمال کا خالق اور اپنے افعال میں مختار و قادر ہے۔ وہ جو کچھ عمل کرتا ہے اپنی قدرت و اختیار کی بنا پر کرتا ہے۔ یہی مسلک " معتزلہ اور " روافض " کا بھی ہے
یہ دونوں فرقے اسلامی نقطہ نظر سے اپنے اپنے مسلک میں راہ اعتدال سے ہٹے ہوئے ہیں اس لئے کہ اگر مرجیہ کے اعتقادات کو مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جب بندہ سے اختیار و قدرت اور ارادہ و مشیت کی نفی کر کے اسے اینٹ پتھر اور لکڑی اور غیرذی ارادہ مخلوق کی طرح مان لیا گیا اور بندہ کے ہر فعل میں اختیار و قدرت کلیۃ اللہ کا مانا گیا یا صاف لفظوں میں یہ کہا جائے کہ گویا صفات خالق کو سامنے رکھ کر صفات عبد سے انکار کر دیا گیا تو قدرتی طور پر یہ بات ماننی پڑے گی کہ بندہ سے سرزد شدہ افعال خود بندہ کے نہیں کہلائے جائیں گے بلکہ ان کو اللہ کے افعال کہا جائے گا خواہ وہ فعل کسی قسم کا ہو اور کسی بھی عضو سے صادر ہوا ہو لہٰذا جب بندہ دیکھے گا تو کہا جائے گا کہ وہ نہیں دیکھ رہا ہے بلکہ اللہ دیکھ رہا ہے جب بندہ کھائے گا تو ماننا پڑے گا کہ وہ نہیں کھا رہا ہے، بندہ جب سنے گا تو تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ نہیں سن رہا ہے بلکہ اللہ سن رہا ہے، بندہ جب سوئے گا تو یہی کہا جائے گا کہ وہ نہیں سو رہا ہے بلکہ اللہ سو رہا ہے تو گویا بندہ سے کوئی فعل بھی جب سرزد ہوگا تو یہی کہنا ہوگا کہ وہ اس بندہ سے نہیں بلکہ درحقیقت اللہ سے سرزد ہو رہا ہے۔ اور چونکہ یہ سب وجود کے آثار ہیں جن سے غافل کے موجود ہونے کا پتہ چلتا ہے تو خلاصہ یہ نکلے گا کہ بندہ اگرچہ موجود ہے لیکن حقیقت میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے، بلکہ وہ خالق اور افعال کے درمیان ایک ایسا ذریعہ ہے جو ان افعال کے اظہار کے لئے واسطہ بن رہا ہے بلکہ موجود تو صرف اللہ کی ذات ہے ورنہ تمام کا تمام کالعدم ہے۔
لہٰذا یہ ساری حجت وحدۃ الوجود اور کثرت موجودات کی نفی پر آکر ختم ہو جائے گی جس کو بعض جاہل صوفیاء کی اصطلاح میں " ہمہ اوست" فرماتے ہیں جس کا حاصل کثرت موجودات اور اعیان ثابت کا برملا انکار اور ساری کثرتوں کو ایک فرضی اور وقتی کارخانہ تصور کر لینا نکل آتا ہے اور ثابت ہو جاتا ہے کہ گویا اس کائنات میں ہر چیز موجود ہو کر بھی کالعدم اور معدوم ہی ہے، موجود صرف ذات واحد ہی ہے اور کوئی نہیں اس کا نتیجہ اصطلاحی الفاظ میں یہ ہے کہ دائرہ وجود کی صرف ایک ہی نوع رہ جائے جسے واجب الوجود فرماتے ہیں اور ممکن الوجود کو کوئی نشان و پتہ ہی نہ رہے بلکہ وہ ہمیشہ کے لئے معدوم محض ہو کر رہ جائے۔
اب ظاہر ہے کہ ایجاد الٰہی یا فیضان وجود جسے تخلیق فرماتے ہیں ممکن ہی پر ہو سکتا ہے اس لئے کہ اسی میں قبول وجود کی صلاحیت ہے لیکن چونکہ وہ معنی معدوم محض ہوگیا ہے جس پر آثار وجود اور آثار زندگی ظاہر نہیں ہو سکتے، تو اب ایجاد کس پر واقع ہو اور تخلیق کس چیز کی عمل میں آئے؟ نیز ایجاد کے بعد ابقاء الٰہی یعنی تدبیر و تصرف اور ربوبیت وغیرہ ایسی وہ تمام صفات حق جن کا تعلق مخلوق سے تھا کس پر واقع ہوں گی؟ اور کہاں اپنی تجلیات دکھلائیں گی؟ جب کہ ذات الٰہی کے سوا کسی غیر کا پتہ نہیں کہ وہ ان صفات کا مورد و مظہر بن سکے، لہٰذا اس شکل میں مانند پڑے گا کہ ایجاد و ابقاء کی تمام صفات معاذ اللہ معطل و بیکار ثابت ہو گئیں ہیں اور تعطل اگر عدم نہیں تو کالعدم ضرور ہے، یا بالفاظ دیگر افعال باری کا عدم ہے جو انتہائی نقص ہے۔
اور جب کہ یہ تمام فعلی کمالات صفات وجود کے آثار تھے جو ذات حق سے منتفی ہوگئے تو بلا شبہ اللہ کا وجود ان کی نفی سے ناقص ٹھہرا اور اللہ کی بے عیب ذات کتنے ہی کمالات مثلا ظہور صفات اور افعال سے کوری رہ گئی جن پر معبودیت کا کارخانہ قائم تھا اور ظاہر ہے کہ نقص صفات اور نقص افعال کے ساتھ خدائی جمع نہیں ہو سکتی، تو ایسی ناقص ذات کو اللہ نہیں کہہ سکتے، نتیجہ یہ نکلا کہ نہ خالق رہا اور نہ مخلوق رہی۔
غور کیجئے کہ مرجیہ کے نظریات نے بندہ کو مجبور محض اور بے اختیار تصور کیا اور اس کے تمام افعال و اعمال کی ذمہ داری تقدیر الہٰی کے سر ڈال دی ، نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے بندہ کے اختیار و قدرت کا انکار کیا تھا تو انجام کار اللہ کی صفات افعال ایجاد ، ترزیق اور قیومیت و تدبیر وغیرہ سے ہاتھ دھونا پڑا۔
اب ذرا " قدریہ" کے مسلک کی تنقیح بھی کر لیجئے اس جماعت نے مرجیہ کارد عمل کرتے ہوئے اس سلسلہ میں محض صفات عہد کو سامنے رکھا، اور صفات معبود سے صرف نظر کر لیا، یعنی بندہ کے اختیارت و قدرت ، ارادہ مشیت اور فعل اور عمل کو اس درجہ میں مستقل اور آزاد بتلایا کہ اس میں اللہ کے ارادہ قدرت اور اختیار و فعل کو دخل ہی نہیں حتی کہ بعض غالی قدریہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ اللہ کو بندہ کے افعال کا علم بھی اس وقت ہوتا ہے جب بندہ اسے کر لیتا ہے ، گویا بندہ کے استعمال اختیار کی حد تک نہ اللہ میں ارادہ ہے، نہ قدرت کو اختیار ہے نہ مشیت ، حتی کہ نہ سابق علم نہ خبر۔
لہٰذا مرجیہ نے تو تقدیر سے مثلاً صفات خالق ارادہ ، علم، قدرت، اختیار وغیرہ کو اللہ سے وابستہ کر کے بندے کو ان سے کورا مان لیا اور قدریہ نے ان صفات کو بندہ سے مستقلاً وابستہ کر کے اللہ کو ان سے خالی مان لیا۔
غور کیجئے! اس لئے کہ اتنی بات تو ظاہر ہے کہ بندہ منٹ بھر میں سینکڑوں اچھے برے افعال اور حرکات و سکنات مختلف اندازوں سے کر گزرتا ہے جس کے عمر بھر کے افعال و حرکات کی گنتی ناممکن ہے، پھر انسانی تصرفات کی حدود اسی عالم تک نہیں ہیں، اس لئے کہ بعض ایسے متعدی افعال بھی ہیں جن میں انسان دوسری اشیاء کائنات کو مفعول بناتا ہے ظاہر ہے ان اشیاء عالم میں جو اس کے تسخیر و تصرف میں آتی ہیں، زمین سے لے کر آسمان تک ساری ہی مخلوقات داخل ہیں۔
لہٰذا سارے انسانوں کے یہ تمام افعال جو سارے ہی عالموں میں پھیلے ہوئے ہیں اور بقول قدریہ یہ انسانوں کی ایسی مخلوقات ہیں جن کی ایجاد و تخلیق میں اللہ کا دخل تو کیا ہوتا ان پر اس کا نہ زور چل سکتا ہے اور نہ ہی اسے ان کی پیدائش سے پہلے ان کا علم ہی ہوتا ہے گویا انسان جو خود اپنی تخلیق میں بے بس ہے اسے تو ان کی تخلیق کا ارادہ کرتے وقت علم ہو جاتا ہے کہ اسے کیا اور کب پیدا کرنا ہے، مگر نعوذ باللہ اللہ اتنا بے خبر اور لا علم کہ اسے یہ بھی خبر نہیں ہوتی کہ کون سی چیز کب پیدا ہوئی اور کون سا فعل کب صادر ہوا۔
اس صورت میں یقینا انسان کی تخلیق کا شمار اللہ کی مخلوقات کے شمار سے بڑھ جائے گا، اس لئے کہ اللہ تو انسان کا خالق ہے اور انسان تمام افعال و اشیاء کا خالق ہے اور ظاہر ہے کہ انسان کی نسبت سے ان کا افعال بلا شبہ کروڑوں گنا زیادہ ہیں، اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ انسانی مخلوقات اللہ کی مخلوقات سے زیادہ نہیں نہ ہو جائے اور پھر مخلوقات بھی ایسی کہ خدائی سرحد سے بالکل خارج جس پر اس کو کوئی بس نہ ہو بلکہ علم قدیم بھی نہ ہو پس اس معاملہ میں کہنا پڑے گا کہ اللہ تو بے بس ہو گیا اور انسان مختار کل ہو گیا، بندہ تو خدائی حدود میں آگیا اور اللہ بندوں کی صف میں جابیٹھا، یعنی بندہ کا زور تو اللہ کی خدائی پر چل گیا کہ اس نے افعال و اشیاء کی تخلیقات کر ڈالیں اور اللہ کا بس اپنی خدائی پر بھی نہ رہا کہ اس ان مخلوقات کے وجود میں آنے کا علم بھی نہ ہو سکا اور اس مقام پر آکر اس کا ارادہ، قدرت، مشیت اور اختیار وغیرہ سب بے کار اور معطل ہو کر رہ گئے۔ (ماخوذاز مسئلہ تقدیر مصنفہ حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحب مدظلہ)
یہ ہے ان دونوں فرقوں کے مسلک کی حقیقت اور اس کا انجام ظاہر ہے کہ یہ دونوں نظریے اپنی اپنی جگہ اسلامی نقطہ نظر سے نہ صرف یہ کہ حد اعتدال سے ہٹے ہوئے ہیں بلکہ گمراہی کی طرف بڑھے ہوئے بھی ہیں جس کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کا عذاب اور خسران آخرت کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔
ان دونوں کے مقابلے میں اہل سنت والجماعت کا مسلک بالکل صاف اور صحیح ہے علماء حق فرماتے ہیں کہ تمام افعال و اعمال کا خالق رب قدوس ہے اور کا سب بندہ ہے یعنی دنیا میں جتنی چیزیں وقوع پذیر ہوتی ہیں یا ہونے والی ہیں وہ سب اللہ کے حکم اور اس کے ارادہ و علم سے ہوتی ہیں، اسی طرح بندوں سے جو کچھ افعال سرزد ہوتے ہیں خواہ وہ افعال نیک ہوں یا افعال بد سب نوشتہ تقدیر کے مطابق دونوں راستے واضح کر دیئے ہیں اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کر دیا کہ اگر نیکی و بھلائی کے راستے کو اختیار کرو گے تو سعادت و نیک بختی سے نوازے جاؤ گے اور اگر کوئی برائی و بدی کے راستے کو اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ کے عذاب میں گرفتار کئے جاؤ گے لہٰذا بندہ اسباب کسب کے اعتبار سے اپنے ہر عمل و فعل میں مختار ہے۔
گویا اہل سنت و الجماعت بندہ کو بیک وقت مختار بھی فرماتے ہیں اور مجبور بھی مگر درمیانی انداز سے کہ اسے نہ مختار مطلق جانتے ہیں نہ مجبور محض یعنی ایک طرف سے اسے مختار مان کر زنجیر تقدیر سے پابستہ بھی فرماتے ہیں اور دوسری طرف اسے مجبور کہہ کر اینٹ و پتھر کی طرح بے حس بھی تسلیم نہیں کرتے۔
بہر حال اس حدیث سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ دونوں فرقے یعنی مرجیہ اور قدریہ کافر ہیں لیکن حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی تحقیق کے مطابق علماء کا قول مختار یہ ہے کہ یہ دونوں فرقے کافر نہیں ہیں البتہ فاسق ہیں کیوں کہ یہ فرقے بھی قرآن و حدیث ہی سے تمسک کرتے ہیں اور اپنے نظریات میں تاویل و توضیح کر کے کفر کے دائرہ سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں۔ لہٰذا اس حدیث کے بارہ میں کہا جائے گا کہ اس سے ان فرقوں کی زجر و ملامت مقصود ہے اور ان کے غلط عقائد کی گمراہی کو واضح کرنا ہے جس میں اس شدت و سختی کے ساتھ ان کے مذہب کا رد کیا جارہا ہے۔ بعض حضرات اس حدیث کی صحت میں بھی کلام کیا ہے۔
حضرت شاہ اسحق کی تحقیق اس کے برخلاف ہے وہ فرماتے ہیں کہ علماء محققین ان فرقوں پر کفر کا حکم لگاتے ہیں اور ان کو خارج الاسلام مانتے ہیں لیکن اس میں اختلاف ہے کہ ان کا کفر آیا تاویلی ہے یا ارتدادی۔