مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 116

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

راوی:

وَعَنْ اَبِیْ نَضْرَۃَ اَنَّ رَجُلًا مِّنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم یُقَالُ لَہ، اَبُوْ عَبْدِ اﷲ دَخَلَ عَلَیْہِ اَصْحَابُہ، یَعُوْدُوْنَہ، وَھُوَ یَبْکِیْ فَقَالُوْا لَہ، مَا یُبْکِیْکَ اَلَمْ یَقُلْ لَّکَ رَسُوْلُ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم خُذْ مِنْ شَارِبِکَ ثُمَّ اَقِرَّہ، حَتّٰی تَلْقَانِی قَالَ بَلٰی وَلٰکِنْ سَمِعْتُ رَسُوْلُ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ اِنَّ اﷲ عَزَّوَجَلَّ قَبَضَ بِیَمِیْنِہٖ قَبْضَۃً وَاُخْرٰی بِالْیَدِ الْاُخْرٰی وَقَالَ ھٰذِہٖ لِھٰذَہٖٖ لھذہٖ وَلَآ اَدرِیْ فِیۤ اَی الْقَبْضَتَیْنِ اَنَا۔(رواہ مسند احمد بن حنبل)

" اور حضرت ابونضرہ (حضرت ابونضرہ بن منذر بن مالک العبدی کا شمار بصرہ کے جلیل القدر تابعین میں ہوتا ہے آپ کا انتقال حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے کچھ دنوں پہلے ہوا ہے۔) راوی کہتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک آدمی جن کا نام عبداللہ تھا، ان کے پاس ان کے دوست ان کی عیادت کے لئے گئے (تو انہوں نے دیکھا) کہ وہ (ابوعبدا اللہ ) رو رہے تھے۔ انہوں نے کہا، کہ آپ کو کس چیز نے رونے پر مجبور کیا (کیونکہ) آپ سے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد نہیں فرمایا تھا کہ تم اپنے لب (مونچھوں) کے بال پست کرو اور اسی پر قائم رہو یہاں تک کہ تم مجھ سے (جنت میں) ملاقات کرو۔ ابوعبداللہ نے کہا، ہاں!لیکن میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ (بھی ) فرماتے سنا ہے کہ اللہ بزرگ و برتر نے اپنے داہنے ہاتھ کی مٹھی میں ایک جماعت لی اور فرمایا کہ یہ (داہنے ہاتھ کی جماعت) جنت کے لئے ہے اور بائیں ہاتھ کی جماعت دوزخ کے لئے ہے اور مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے، یہ کہہ کر ابوعبداللہ نے فرمایا: میں نہیں جانتا کہ میں کس مٹھی میں ہوں (یعنی داہنی مٹھی ہوں یا باہنی مٹھی میں ہوں)۔ " (مسند احمد بن حنبل)

فائدہ :
حضرت ابوعبداللہ صحابی بیمار ہوئے ان کے کچھ دوست واحباب مزاج پرسی کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں، ان لوگوں نے یہ کیفت دیکھ کر کہا کہ آپ کو تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیت کا شرف حاصل ہے اور پھر مزید یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے یہ فرمایا تھا کہ تم اپنی مونچھوں کو پست ہلکی کراتے رہنا اور اسی پر قائم رہنا یہاں تک کہ حوض کوثر پر یا جنت میں مجھ سے تم ملاقات کرو تو گویا آپ کو جنت میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی خوشخبری دی گئی ہے اور ظاہر ہے کہ جنت میں داخل ہونا اور اس عظیم سعادت سے بہرہ ور ہونا بغیر اسلام کے ہو نہیں سکتا، تو معلوم ہوا کہ آپ کا خاتمہ بالخیر ہوا اور آپ ایمان و اسلام کے ساتھ اس دنیا سے کوچ کریں گے، لہٰذا پھر رونا کیوں؟ اور یہ فکر و غم کیسا؟ اس کو جواب مرد حق آگاہ نے یہ دیا کہ صحیح اور بجا ہے اور اس خوشخبری کی صداقت کا اعتقاد بھی لیکن پروردگار عالم بے نیاز ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اس کی مرضی میں کسی کا دخل نہیں ہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے خود یہ فرمایا ہے کہ میں جس کو چاہوں جنت کی سعادت سے نوازدوں اور جس کو چاہوں دوزخ کے حوالہ کر دوں اور مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے۔ تو مجھے بھی یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ نا معلوم میرا کیا حشر ہو؟ اور دل اس خوف سے لرزاں اور آنکھیں ڈر سے اشک بار ہیں کہ نہ جانے اللہ نے میرے مقدر میں کیا لکھ رکھا ہے۔یہ ان کے جواب کا حاصل تھا ، لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آخرت کے تصور اور خوف اللہ کے غلبہ سے اس خوشخبری کو بھول گئے ہوں اور انہیں اس کا احساس نہ رہا ہو کہ لسان نبوت نے مجھے اس خوشخبری جیسی عظیم سعادت سے بھی نواز رکھا ہے۔
علامہ طیبی علیہ الرحمۃ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ مونچھیں ہلکی کرانا سنت موکدہ ہے اور اس عمل پر قائم رہنا اور ہمیشہ اس کو کرتے رہنا جنت میں دخول اور وہاں سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر سایہ ہونے کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ اس ایک سنت کو ترک کرنے سے یعنی مونچھیں پست و ہلکی نہ کرانے سے ایسی عظیم سعادت اور اتنی بڑی فلاح ہاتھ سے جاتی ہے چہ جائیکہ سنت کو ہمیشہ ترک کرتا رہے ، اس لئے کہ ترک سنت پر اصرار ، الحاد و زندقہ تک پہنچاتا ہے۔ (نعوذ با اللہ )۔

یہ حدیث شیئر کریں