تقدیر پر ایمان لانے کا بیان
راوی:
وَعَنْ اَبِیْ الدَّرْدَآءِ قَالَ بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم نَتَذَا کَرُمَا یَکُوْنُ اِذْقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا سَمِعْتُمْ بِجَبَلِ زَالَ عَنْ مَکَانِہٖ فَصَدِّقُوْہُ وَاِذَا سَمِعْتُمْ بِرَجُلِ تَغَیَّرَ عَنْ خُلُقِہٖ فَلَا تُصَدِّقُوْا بِہٖ فَاِنَّہ، یَصِیْرُ اِلٰی مَاجُبِلَ عَلَیْہِ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل)
" اور حضرت ابودرداء فرماتے ہیں کہ ہم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے آئندہ وقوع پذیر ہونے والی باتوں پر گفتگو کر رہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ہماری باتوں کو سن کر) فرمایا۔ جب تم سنو کہ کوئی پہاڑ اپنی جگہ سے سرک گیا ہے تو اسے سچ مان لو لیکن جب تم یہ سنو کہ کسی آدمی کی خلقت بدل گئی ہے تو اس کا عتبار نہ کرو اس لئے کہ انسان اسی چیز کی طرف جاتا ہے جس پر وہ پیدا کیا گیا ہے۔" (مسند احمد بن حنبل)
تشریح
صحابہ آپس میں بیٹھے ہوئے یہ بحث کر رہے تھے کہ جو چیز آئندہ ہونے والی یا جو باتیں وقوع پذیر ہونے والی ہیں، کیا وہ نوشتہ تقدیر کے مطابق ہوتی ہیں یا از خود بغیر قضاء قدر کے واقع ہوتی ہیں، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس مجلس میں تشریف فرما تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بحث سن کر فرمایا کہ ہر چیز نوشتہ تقدیر کے مطابق بر وقت وقوع پذیر ہوتی ہے اور مثال کے طور پر فرمایا کہ ایک انسان اپنی جس جبلت اور خلقت پر پیدا ہوتا ہے اسی پر ہمیشہ قائم رہتا ہے اور اسی کی طرف اس کا حقیقی میلان رہتا ہے۔ مثلا جس کو اللہ نے عقلمند و دانا پیدا کیا اور اس کی سرشت و فطرت میں عقل و دانش کا مادہ و دیعت فرمایا اور اس کی تقدیر میں فہم و فراست کے جوہر رکھ دیئے گئے تو وہ کبھی بے وقوف احمق نہیں ہو سکتا، اسی طرح جس آدمی کی جبلت و حماقت کے سانچے میں ڈھلی ہو اور جس کو فطرتا بیو قوف وپلید پیدا کیا گیا ہو وہ عقل مند و دانشور نہیں ہو سکتا۔
ہاں ایسے افراد جو اپنی ریاضت و مشقت اور ذاتی محنت و کوشش کی بنا پر عقل کی دولت حاصل کر لیتے ہیں یا اصحاب عقل و دانش کی صحبت اختیار کر کے ان اوصاف کے حامل ہو جاتے ہیں وہ اس سے مستثنیٰ ہیں، اس لئے کہ یہاں بحث جبلت اور خلقت کی ہے کہ جس انسان کو جس خصلت و فطرت پر پیدا کر دیا گیا وہ اس سے الگ نہیں رہ سکتا اور نہ اس جبلت و خصلت میں تغیر و تبدل ممکن ہے ۔ رہا اپنی ذاتی محنت و کوشش یا اصحاب عقل و فہم کی صحبت، تو یہ ایک دوسری چیز ہے کیونکہ یہ بھی نوشتہ تقدیر کے مطابق ہی ہے یعنی جس آدمی کی تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے کہ یہ اپنی محنت و کوشش یا کسی عقل مند و دانشور کی صحبت و قربت کی بنا پر صاحب عقل بنے گا وہ یقینا اس وصف کو حاصل کر لے گا لیکن جس کی تقدیر میں بے وقوف رہنا ہی لکھ دیا گیا ہے یا جس کی جبلت میں حماقت رکھ دی گئی ہے اس میں نہ اپنی محنت و کوشش کام کرتی ہے اور نہ کسی عقل مند کی قربت و صحبت۔