عذاب قبر کے ثبوت کا بیان
راوی:
عَنْ عَائِشَۃَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّ ےَھُوْدِےَّۃً دَخَلَتْ عَلَےْھَا فَذَکَرَتْ عَذَابَ الْقَبْرِ فَقَالَتْ لَھَا اَعَاذَکِ اللّٰہُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فَسَأ لَتْ عَائِشَۃُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فَقَالَ نَعَمْ عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ قَالَتْ عَائِشَۃُ فَمَا رَأَ ےْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم بَعْدُ صَلّٰی صَلٰوۃً اِلَّا تَعَوَّذَ بِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
" اور حضرت عائشہ راوی ہیں کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی اور اس نے قبر کے عذاب کا ذکر کیا اور پھر اس نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہا " عائشہ ! اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب قبر سے محفوظ رکھے!" حضرت عائشہ نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر کا حال پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں قبر کا عذاب حق ہے ! حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اس واقعہ کے بعد میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز پڑھی ہو اور قبر کے عذاب سے پناہ نہ مانگی ہو۔ " (صحیح البخاری و صحیح مسلم )
تشریح
حضرت عائشہ صدیقہ کو عذاب قبر کا حال معلوم نہیں ہوگا چنانچہ جب اس یہودی عورت نے ان سے اس کا تذکرہ کیا تو وہ بڑی حیران ہوئیں اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارہ میں سوال کیا جس کا جواب دیا گیا کہ قبر کا عذاب حق اور یقینی ہے، یعنی اس بات کا اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ قبر میں گناہ گار لوگوں پر اللہ کی جانب سے طرح طرح کے عذاب مسلط کئے جاتے ہیں اور اس کا احساس و ادراک اس دنیا میں نہیں کیا جا سکتا۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پناہ مانگنے کے بارے میں احتمال ہے کہ ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پہلے سے قبر کے عذاب کا حال معلوم نہ ہوا ہو، اس کے بعد بذریعہ وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا ہو جس کے بعد سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگنی شروع کر دی اور ظاہر ہے کہ نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تو قبر میں اس قسم کو کوئی معاملہ ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اس لئے کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پناہ مانگنا محض امت کی تعلیم کے لئے تھا کہ جب اللہ کا محبوب و برگزیدہ بندہ اور اس کا پیارا رسول بھی عذاب قبر سے پناہ مانگ رہا ہے تو امت کے تمام لوگوں کو چاہئے کہ عذاب قبر سے پناہ مانگتے رہیں۔
یا پھر یہ کہا جائے گا کہ عذاب قبر کا حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے سے معلوم تھا اور پوشیدہ طور پر اس سے پناہ بھی مانگتے ہوں گے جس کی حضرت عائشہ کو خبر نہیں ہوگی، بعد میں حضرت عائشہ کے سوال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلے طور پر پناہ مانگنی شروع کر دی ہوتا کہ دوسرے بھی متنبہ ہوں اور عذاب قبر سے پناہ مانگتے رہیں۔