کتاب سے مراد کتاب اللہ یعنی قرآن مجید ہے اور سنت سے مراد رسول اللہ و کے اقوال، افعال اور احوال ہیں جن کے مجموعہ کا نام حدیث ہے ان کو شریعت ، طریقت، حقیقت فرماتے ہیں۔
راوی:
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَےْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنها راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات نکالی جو اس میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
فائدہ :
مومن و مسلمان ہونے کا ملطب یہ ہے کہ اس کا اعتقاد و ایمان پختہ اور کامل ہو کہ قرآن و سنت نے جو راستہ بتا دیا ہے اس پر پورے یقین کے ساتھ چلنا اور شریعت نے جو حدود قائم کر دی ہیں ان کے اندر پورے اعتقاد کے ساتھ رہنا ہی عین فلاح و سعادت سمجھے، اپنی طرف سے ایسے راستے پیدا کرنا جو سراسر منشاء شریعت کے خلاف ہوں، یا ایسے طریقے اختیار کرنا جو قرآن و سنت کے صحیح راستے سے الگ ہوں نہ صرف یہ کہ ایمان و اعتقاد کی سب سے بڑی کمزوری ہے بلکہ دعویٰ اسلام کے برخلاف بھی ہے۔
چنانچہ اس حدیث میں ان لوگوں کو مردود قرار دیا جارہا ہے جو محض اپنی نفسانی خواہشات اور ذاتی اغراض کی بنا پر دین و شریعت میں نئے نئے طریقے رائج کرتے ہیں اور ایسی غلط باتوں کا انتساب شریعت کی طرف کرتے ہیں جن کا اسلام میں سرے سے وجود ہی نہیں ہوتا۔
مثلا کوئی آدمی اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتا ہے اور اپنی فہم کے مطابق اسلام میں ایسی نئی چیزیں پیدا کرتا ہے جس کا ثبوت نہ تو قرآن و سنت سے ظاہرا ہے اور نہ معنا اور نہ اس کی سند کسی اسلامی نظریہ سے مستنبط ہے تو اسے مردود قرار دیا جائے گا۔ ہاں حدیث کے الفاظ مالیس منہ نے اس بات کی طرف اشارہ کر دیا ہے کہ ایسی چیزیں پیدا کرنا، یا ایسے نظریے قائم کرنا جو کتاب سنت کی منشاء کے خلاف اور ان کے برعکس نہ ہوں ان پر کوئی مواخذہ نہیں ہے اور نہ ان پر کوئی نکیر قائم کی جاسکتی ہے۔