کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان
راوی:
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَاقَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَبْغَضُ النَّاسِ اِلَی اللّٰہِ ثَلٰثَۃٌ مُّلْحِدٌ فِی الْحَرَمِ وَمُبْتَغٍ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃَ الْجَاھِلِےَّۃِ وَمُطَّلِبُ دَمِ امْْْرِءٍ مُّسْلِمٍ بِغَےْرِ حَقِّ لِّےُھْرِےْقَ دَمَہُ ۔ (بخاری)
" اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی الله عنه راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی الله علیه وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ مغضوب (وہ لوگ هیں جن سے اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہے) تین ہیں۔ (١) حرم میں کجروی کرنے والا۔ (٢) اسلام میں ایام جاہلیت کے طریقوں کو ڈھونڈھنے والا۔ (٣) کسی مسلمان کے خون ناحق کا طلب گار تاکہ اس کے خون کو بہائے۔" (صحیح البخاری )
فائدہ :
اس حدیث میں تین آدمیوں کو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور مغضوب قرار دیا جاتا ہے، پہلا آدمی تو وہ ہے جسے اللہ نے اپنے گھر یعنی بیت اللہ میں حاضری کی سعادت بخشی مگر وہ بیت اللہ کی نہ تو عظمت کرتا ہے اور نہ حدود حرم میں ممنوع چیزوں سے پرہیز کرتا ہے بلکہ وہ حرم میں کجروی کرتا ہے یعنی ایسی چیزیں اختیار کرتا ہے جو ایک طرف تو اس مقدس جگہ کی شان عظمت کے منافی ہیں اور دوسری طرف احکام شریعت کی کھلی خلاف ورزی کے مترادف ہیں مثلا وہاں لڑائی جھگڑا کرنا، شکار کرنا، یا کوئی بھی مطلق گناہ اور قانوں شریعت کی خلاف ورزی کرنا۔
دوسرا آدمی وہ ہے جس کو اللہ نے ایمان و اسلام کی دولت سے نوازا اور اس کے قلب کو یقین و اعتقاد کی روشنی سے منور کیا مگر وہ اسلام میں ان چیزوں کو اختیار کرتا ہے جو خالص زمانہ جاہلیت کا طریقہ اور غیر اسلامی رسمیں تھیں جیسے نوحہ کرنا، یا مصائب و تکالیف کے وقت چاک گربیان ہونا، برے شگون لینا، اور نو روز کرنا، یا ایسی رسمیں کرنا جو خالص کفر کی علامت ہوں (جیسے اولیاء اللہ کے مزار پر عرس کرنا، وہاں چراغاں کرنا، قبروں پر روشنی کا انتظام کرنا، غیر اللہ کے نام پر نذرو نیاز کرنا محرم و شب برأت میں غلط رسمیں ادا کرنا۔ وغیرہ وغیرہ)۔
تیسرا آدمی وہ ہے جو کسی مسلمان کا ناحق خون بہانے کا طلب گار ہو یعنی کسی مسلمان کو قتل کرنے کا مقصد محض خون ریزی ہو اور کوئی دوسرا مقصد نہ ہو، اگرچہ محض قتل ہی کوئی چھوٹا جرم نہیں ہے اس پر بھی بڑی وعید ہے مگر جب مقصد صرف خون ریزی ہو تو یہ جرم شریعت کی نظر میں اور زیادہ قابل نفرت ہو جاتا ہے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب محض خون ریزی کی خواہش اور طلب ہی اتنا بڑا جرم ہے تو اس جرم کو کر گزرنا یعنی واقعۃ کسی کا ناحق خون بہا دینا کتنا بڑاجرم ہوگا اور اس کی کتنی سخت سزا ہوگئی؟