کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان
راوی:
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدِ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ((ضَرَبَ اﷲُ مَثَلًا صِّرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا وَعَنْ جَنْبَتَیِ الصِّرَاطِ سُوْرَانٌ فِیْھِمَا اَبْوَابٌ مُفَتَّحَۃٌ وَعَلَی الْاَبْوَابِ سْتُوْرٌ مُرْخَاۃٌ وَعِنْدَ رَأْسِ الصِّرَاطِ دَاعِ یَقُوْلُ اسْتَقِیْمُوْا عَلَی الصِّرَاطِ وَلَا تَعَوَجُّوْا وَفَوْقَ ذٰلِکَ دَاعِ یَّدْعُوْ کُلَّمَاھَمَّ عَبْدٌ اَنْ یَفْتَحَ شَیْئًا مِنْ تِلْکَ الْاَبْوَابِ قَالَ: وَیْحَکَ لَا تَفْتَحُہ، فَاِنَّکَ اِنْ تَفْتَحُہ، تَلِجْہ،))ثُمَّ فَسَّرَہ، فَاَخْبَرَ ((اَنَّ الْصَرَاطَ ھُوَ الْاِسْلَامُ وَاَنَّ الْاَبْوَابَ الْمُفَتَّحَۃَ مَحَارِمُ اللّٰہِ وَاَنَّ السَّتُوْرَ الْمُرْخَاۃَ حُدُوْدُ اللّٰہِ وَاَنَّ الدَّاعِیَ عَلَی رَأْسِ الصِّرَاطِ ھُوَالْقُرْاٰنُ وَاَنَّ الدَّاعِیَ مِنْ فَوْقِہٖ ھُوَوَاعِظُ اﷲِ فِیْ قَلْبِ کُلِّ مُؤْمِنِ)) رَوَاہُ رَزَیْنٌ وَاَحْمَدُ وَالْبَیْھَقِیُّ فِی شُعَبِ الْاِیْمَانِ عَنِ النَّوَاسِ بْنِ سَمَعَانَ وَکَذَا التِّرْمِذِیُّ عَنْہ، اِلَّا اَنَّہُ ذَکَرَ اَخْصَرَ مِنْہُ۔
" اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ایک مثال بیان فرمائی ہے (وہ یہ کہ) ایک سیدھا راستہ ہے اور اس کے دونوں طرف دیواریں ہیں۔ ان دیواروں میں کھلے ہوئے دروازے ہیں دروازوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور راستہ کے سر پر پکارنے والا کھڑا ہے جو پکار پکار کر کہتا ہے، سیدھے راستہ پر چلے آؤ، غلط راستے پر نہ لگو ! اس پکارنے والے کے اوپر (یعنی اس کے آگے کھڑا ہوا) ایک دوسرا پکارنے والا ہے، جب کوئی بندہ ان دروازوں میں سے کوئی دروازہ کھولنا چاہتا ہے تو وہ (دوسرا پکارنے والا) پکار کر کہتا ہے، تجھ پر افسوس ہے! اس کو نہ کھول اگر تو اسے کھولے گا تو اس کے اندر داخل ہو جائے گا (اور وہاں سخت تکلیف میں ہوگا) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مثال کی وضاحت کی اور فرمایا: سیدھا راستہ سے مراد اسلام ہے (جس کو اختیار کر کے جنت میں پہنچتے ہیں) اور کھلے ہوئے دروازوں سے مراد وہ چیزیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے (جس کو اختیار کرنا تکمیل اسلام کے منافی ہے) اور (دروازوں پر) پڑے ہوئے پردوں سے مراد اللہ تعالیٰ کی قائم کی ہوئی حدود ہیں اور راستہ کے سرے پر جو پکارنے والا کھڑا ہے اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصیحت کرنے والا فرشتہ ہے جو ہر مومن کے دل میں ہے۔ زرین، مسند احمد بن حنبل اور بیہقی نے اس روایت کوشعب الایمان میں نو اس بن سمعان سے نقل کیا ہے اور جامع ترمذی نے بھی انہیں سے روایت کی ہے مگر جامع ترمذی نے اختصار ساتھ بیان کیا ہے۔"
تشریح :
شرعی احکام زیادہ تر دو ہی قسموں سے متعلّق ہیں یعنی حلال و حرام اور ان دونوں کو شریعت نے وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا ہے جو چیزیں حلال ہیں ان کے بارہ میں بھی اعلان کر دیا گیا ہے اور جو چیزیں حرام ہیں ان کی بھی تصریح کر دی گئی ہے اور بتا دیا گیا ہے کہ جس طرح حلال چیزوں پر عمل کر کے اللہ کی خوشنودی ورضا کے مستحق ہوگے اسی طرح حرام چیزوں کو اختیار کر کے سزا کے مستوجب گردانے جاؤ گے جو چیزیں حرام قرادی گئی ہیں ان کے اور بندوں کے درمیان اللہ نے اپنے احکام سے حدیں قائم کر دی ہیں تاکہ بندے اس سے تجاوز کر کے محرمات کے ارتکاب کے مجرم نہ ہوں، انہی حرام چیزوں اور حدود کو جو احکام الہٰی ہیں اس مثال میں دروازں اور پردوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔
اسی طرح مثال مذکورہ میں فرمایا گیا ہے کہ ہر مومن کے دل پر ایک فرشتہ ہوتا ہے جو قلب کا محافظ ہوتا ہے جس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ بندہ کو نیکی کے راستہ پر لگانے کی سعی کرے اس کو تائید الہٰی اور توفیق الٰہی کہتے ہیں اگر کسی بندے کے ساتھ تائید الہٰی و توفیق الٰہی نہ ہو تو انسان کتنا بھی چاہے ہدایت کے راستہ پر نہیں لگ سکتا ۔ چنانچہ مثال میں قرآن کو راہبر بتایا گیا ہے مگر اس کی طرف بھی اشارہ کر دیا گیا ہے کہ قرآن کی ہدایت بھی اسی وقت کارآمد ہوتی ہے جب کہ بندہ کے ساتھ تائید الہٰی اور توفیق الٰہی بھی شامل ہو۔ قرآن تو راستہ بتا دیتا ہے اور سیدھے راستے پر چلنے کی ہدایت کرتا ہے مگر اس سے نصیحت حاصل کرنا اور اس راہ پر چل کر منزل مقصود تک پہنچنا اسی وقت ہو سکتا ہے کہ جب بندہ کے دل میں اللہ کی جانب سے ہدایت ڈال دی جائے۔