کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان
راوی:
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدِ قَالَ: مَنْ کَانَ مُسْتَنًا فَلْیَسْتَنَّ بِمَنْ قَدْمَاتَ فَاِنَّ الْحَیَّ لَا تُؤْمَنُ عَلَیْہِ الْفِتْنَۃُ اُوْلٰئِکَ اَصْحَابُ مُحَمَّدِ صلی اللہ علیہ وسلم کَانُوْا اَفْضَلَ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اَبَرَّھَا قُلُوْبًا وَّاَعْمَقَھَا عِلْمًا وَّاَقَلَّھَا تَکَلُّفًا اخْتَارَھُمُ اﷲُ لِصُحْبَۃِ نَبِیِّہٖ وَلَا قَامَۃِ دِیْنِہٖ فَاعْرِفُوْالَھُمْ فَضْلُھُمْ وَاتَّبِعُوْ ھُمْ عَلَی اَثَارِھِمْ وَتَمَسَّکُوْا بِمَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ اَخْلَاقِھِمْ وَسِیَرِھِمْ فَاِنَّھُمْ کَانُوْا عَلَی الْھُدٰی الْمُسْتَقِیْم۔ (رواہ رزین)
" اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جو آدمی کسی طریقہ کی پیروی کرنا چاہے تو اس کو چاہئے کہ ان لوگوں کی راہ اختیار کرے جو فوت ہو گئے ہیں کیونکہ زندہ آدمی (دین میں) فتنہ سے محفوظ نہیں ہوتا اور وہ لوگ جو فوت ہو گے ہیں ( اور جن کی پیروی کرنی چاہئے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ہیں، جو اس امت کے بہترین لوگ تھے، دلوں کے اعتبار سے انتہا درجہ کے نیک، علم کے اعتبار سے انتہائی کامل اور بہت کم تکلّف کرنے والے تھے، ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت اور اپنے دین کو قائم کرنے کے لئے منتخب کیا تھا لہٰذا تم ان کی بزرگی کو پہچانو اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرو اور جہاں تک ہو سکے ان سے آداب و اخلاق کو اختیار کرتے رہو (اس لئے کہ) وہی لوگ ہدایت کے سیدھے راستہ پر تھے۔" (رزین)
تشریح :
مرے ہوئے لوگوں سے مراد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں اور زندوں سے عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ کے لوگ اور تابعین مراد ہیں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ ارشاد تابعین کے سامنے ازراہ نصیحت فرمایا تھا اور ہو سکتا ہے کہ ان دور میں چونکہ باطل فرقے جنم لینے لگے تھے جو صحابہ کرام کی ذات اقدس کے پاک دامن پر گندگی و غلاظت کے چھینٹے ڈالتے تھے جیسا کہ رافضی اور ملحدین کے گروہ اس ناپاک مشغلہ میں لگے ہوئے تھے اس لئے عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے غلط الزامات اور صحابہ پر باندھے گئے ہتان کی رد میں صحابہ کرام کی عظمت و بزرگی اور ان کی فضیلت کا اظہار فرمایا۔
چنانچہ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہادت دے رہے ہیں کہ صحابہ کرام امت کے بہترین اور انتہا درجہ کے نیک لوگ تھے۔ یعنی ان کے قلوب ایمان و اسلام کی روشنی سے پوری طرح منوّر تھے خلوص و استقامت کے اوصاف سے متصف تھے ایمان کامل کی دولت سے مشرف تھے اور زہد و تقدس و خشیت الہٰی سے ان کی زندگیاں معمور تھیں۔
پھر دوسری بات یہ کہ یہی وہ مقدس جماعت تھی جس نے سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبّیک کہا اور اللہ کے دین کو پھیلانے میں معین و مددگار رہے، جس کے نتیجہ میں انہیں جن جانکاہیوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا وہ ظلم و ستم اور تشدّد و بربریّت کے جس دور سے گزرے اور انہوں نے اسلام کی اشاعت و بقاء کے سلسلہ میں جو قربانیاں دیں وہ اسلامی تاریخ کا سب سے تابناک باب ہے۔
چنانچہ اسلامی تاریخ کے جاننے والے جانتے ہیں کہ ان مقدّس حضرات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معاونت اور رفاقت اور دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے صلہ میں کتنی سختیوں اور مشکلات سے دو چار ہو نا پڑا، زندگی کی کوئی ایسی تکلیف نہ تھی جس میں یہ مبتلا نہ کئے گئے ہوں، کوئی ایسی آزمائش نہ تھی جس سے انہیں سابقہ نہ پڑا ہو اور یہ سب اللہ کی جانب سے محض اس لئے تھا کہ ان قلوب کو خوب جانچ، پرکھ لیا جائے اور دیکھ لیا جائے کہ جس عظیم مشن کے چلانے کے لئے ان کو منتخب کیا جا رہا ہے اور جس رسول کی رفاقت جیسے عظیم منصب کے لئے ان کو پسند کیا جا رہا ہے ان کے ذہن و فکر اور دل و دماغ اس کے اہل ہیں یا نہیں، ان کے قلوب سختیوں کو برداشت کرنے کے قابل اور مشکلات پر صبر و شکر کرنے والے ہیں یا نہیں، چنانچہ ان کو امتحان میں ڈالا گیا ہے، آزمائش کی گئی اور وہ حضرات امتحان و آزمائش کے ہر مرحلہ سے کامیاب گزرے اور مصیبت و سختی کی ہر بھٹی سے کندن ہو کر نکلے، ان کے صبر و رضا کا جب امتحان لیا گیا تو ایسے صابر و شاکر نکلے کہ بڑی سے بڑی سختی اور سخت مصیبت پر بھی ان کے قدم میں لغزش آنے کی بجائے اور استقامت پیدا ہوئی اور وہ اپنے ایمان و اسلام پر پورے ایقان و اعتماد کے ساتھ قائم و مضبوط رہے ان کے اسی عظیم وصف کی شہادت قرآن نے اس طرح دی ہے کہ :
آیت ( اُولٰ ى ِكَ الَّذِيْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰى ۔ (49۔ الحجرات : 3)
" یہ صحابہ وہی ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے ادب کے واسطے جانچ لیا ہے۔"
اگر علم و فضل کی کسوٹی پر ان سختیوں کو پرکھا جائے تو بلا مبالغہ نتیجہ یہی قائم کرنا پڑے گا کہ ہر صحابی علم و معرفت، فہم و فراست ، تدبر و فکر، عقل و دانش کا مینارہ نور تھا جن سے دنیا نے ظلم و جہل کے اس ماحول میں تعلیم و ترقی وتہذیب و شرافت اور انسانیت کی روشنی حاصل کی۔ چنانچہ کوئی حدیث و تفسیر میں یکتا تھا تو کوئی فقہ و قراءت کا امام کسی کے اندر تصوّف و فرائض کا علم پورے کمال کے ساتھ تھا تو کسی کے اندر معانی و ادب کا بحربیکراں موجزن تھا، غرض کہ ہر ایک اپنی جگہ علمی حیثیت سے بھی کامل واکمل تھا۔ اور پھر یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شرف و صحبت کا اثر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ کرشمہ ساز کا کمال تھا کہ نہ صرف مرد صحابی بلکہ عورت صحابیہ بھی اپنی اپنی جگہ علم و معرفت کے آفتاب ہدایت تھے جن سے بڑے بڑے صحابی روشنی حاصل کرتے تھے۔
روحانی واخروی عظمت و سعادت کے اس عظیم مرتبہ پر ہوتے ہوئے ان مقدس حضرات کی بے تکلّفی کا یہ عالم تھا کہ عملی دنیا میں بھی دولت و ثروت ، اقتدار حکمرانی اور ملک و وجاہیت کے باوجود انہیں ننگے پاؤں پھرنے میں عار تھا اور نہ زمین و فرش پر نماز پڑھنے، لیٹنے بیٹھنے میں کوئی شرم محسوس ہوتی تھی۔ سادگی کی حد تھی کہ مٹی لکڑی کے برتن و باسن میں انہیں کھانے پینے میں کوئی تکلّف نہیں ہوتا تھا، دوسرے لوگوں کا جھوٹا کھانا اور پینا ان کے نزدیک کوئی معیوب چیز نہ تھی، آداب گفتگو کی یہ کیفیت تھی کہ ہر ایک کی نجی بات چیت نے بھی کبھی شرافت و تہذیب کا دامن نہیں چھوڑا، بیکار گفتگو، لا یعنی باتیں، لغو باتوں سے کو سوں دور رہتے کلام و گفتگو وہی کرتے جو ضروری اور بامقصد ہو صاف گوئی اس درجہ کی تھی کہ جو مسئلہ انہیں معلوم نہ ہوتا نہایت صفائی سے کہہ دیتے کہ ہمیں یہ معلوم نہیں ہے آج کل کی طرح خواہ مخواہ تکلّف کر کے لچھے دار تقریریں کر کے مسئلے کو غلط سلط بیان نہیں کرتے تھے بلکہ وہ جسے اپنے سے افضل سمجھتے تھے نہایت خلوص کے ساتھ سائل کو ان کے پاس بھیج دیتے کہ ان سے دریافت کر لو، حصول علم کا اتنا شوق تھا کہ جس کو وہ علم میں اپنے سے بڑا سمجھتے، خواہ وہ عمر میں کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، استفادہ کے لئے اس کے پاس جانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا تھا۔
جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ ان کے یہاں زندگی کے کسی بھی شعبہ میں تصنع و بناوٹ نام کو بھی نہیں ہوتی تھی یہاں تک کہ وہ لوگ اگر قرآن پڑھتے تو وہ بھی کسی تصنع و بناوٹ کے بغیر اس کے پورے حقوق و آداب کو ملحوظ رکھ کر خالص عربی لہجہ میں پڑھتے تھے یہ نہیں تھا کہ خواہ مخواہ آواز بنا کر راگ و سر کے ساتھ پڑھتے ہوں۔
یہی حال ان کے باطن کا تھا چونکہ انہیں براہ راست سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرب و صحبت کا شرف حاصل تھا اس لئے ان کے قلوب پوری طرح مجلیٰ و مصفا ہو کر ہمہ وقت یاد الہٰی اور ذکر اللہ میں مصروف رہتے تھے، ان کے افکار عرفان و حقیقت کی انتہائی بلندیوں پر تھے، آج کل کے جاہل صوفیاء اور پیروں کی طرح وہ دکھلانے کے لئے حال میں آکر رقص نہ کرتے تھے نہ ہو ہا کا شور و شغب کرتے تھے اور نہ وہ اپنے قلوب کی صفائی کے لئے ہارمونیم کے ساز پر، طبلہ کی تھاپ پر اور قوالی کی تان پر حصول معرفت کا دعویٰ کرتے تھے جیسا کہ آج کے دور میں اہل اللہ کے مزارات پر ان لغویات سے تصوّف و طریقت کے نام پر سرور و کیف حاصل کیا جاتا ہے اور نہ وہ کسی اسکیم و تنطیم کے باعث حلقہ وغیرہ بنا کر مسجد و گھر میں ذکر جہر کرتے تھے بلکہ نہایت سادگی کے ساتھ جسے جہاں موقع مل جاتا وہیں یاد الہٰی میں نہایت صبر و سکون کے ساتھ مشغول ہو جانا ان کی اسی سادگی اور خلوص کی وجہ سے بظاہر تو ان کے اجسام فرش پر نظر آتے مگر ان کی روحیں عرش پر سیر کرتی ہوتیں، ان کے ظاہری بدن لوگوں کے ساتھ ہوتے مگر ان کے قلوب مقام قرب کی انتہائی بلندیوں پر ہوتے۔
صحابہ کا طرز معاشرت بھی تصنع و بناوٹ اور تکلّف سے بالکل پاک و صاف تھا، انہیں جو میسر آتا وہی کھا لیتے جو مل جاتا وہی پہن لیتے، موٹا چھوٹا کپڑا ہو وہ پہن لیا، عمدہ ملا اسے استعمال کر لیا، یہ نہیں تھا کہ دنیا کو دکھلانے کے لئے یا اپنے زہد و تقدّس کا رعب جمانے کے لئے حرقہ، گڑری یا ایسے ہی لباس اپنے اوپر لازم کر رکھے ہوں، ہاں جسے یہی لباس میسر ہوتا وہ اسے بھی استعمال کرتا، کھانے پینے میں یہ تامل تھا نہایت ذوق و شوق سے کھاتے اور اگر روکھا سوکھا دال دلیا ہی اللہ دے دیتا تو اسے بھی نہایت صبر و شکر سے کھا لیتے۔
بہر حال عبادات ہوں یا معاملات، اخلاق و عادات ہوں، یا معیشت و معاشرت، زندگی کے ہر پہلو میں ان کے یہاں خلوص اور بے تکلّفی و سادگی تھی اور انہوں نے اپنے نظام حیات کو ایسے سانچے میں ڈھال رکھا تھا جو خالص اسلامی دینی اور اخلاقی تھا اور یہ سب نگاہ نبوت کی کرشمہ سازی اور اس ذات اقدس کی صحبت کا اثر تھا جو خود اپنے قول الحدیث (ادبنی ربی فاحسن تادیبی) (یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے ادب سکھایا اور ادب کے انتہائی درجہ بر پہنچایا) کے مطابق ادب و اخلاق اور تہذیب و شرافت کے تمام جواہر ازل ہی سے اپنے اندر سموئے ہوئے تھے کہ جو قوم دنیا کی سب سے زیادہ غیر مہذب، غیر متمدن، اور غیر ترقی یافتہ تھی اور اصلاح و تربیت کے ذریعہ اسے تہذیب و تمدن اور اخلاق و احسان کے اس مقام رفیع تک پہنچا دیا جہاں نہ صرف یہ کہ وہ خود ایک کامل اور عظیم قوم ثابت ہوئی بلکہ دنیا کی دوسری قوموں نے اس کے نقش قدم کو اپنے لئے جادہ منزل بنا کر تہذیب و تمدن کی انتہائی بلندیوں پر بسیرا کیا۔
چنانچہ اس حدیث میں عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو یہی ہدایت فرما رہے ہیں کہ اگر تم ہدایت کا راستہ چاہتے ہو، فلاح کی منزل کے خواہش مند ہو، عرفان الہٰی اور حبّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے انتہائی مقام پر پہنچنا چاہتے ہو تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ اسی مقدّس جماعت کے راستہ کو اختیار کرو، انہی کے اخلاق و عادات کو اپنے لئے جادہ منزل جانو، انہی کی متابعت و پیروی کو کامیابی و کامرانی کا ذریعہ سمجھو اور ان کی عقیدت و محبت سے زندگی کے ہر گوشہ کو منور کرو۔
اس جگہ اتنی بات اور سمجھ لینی چاہئے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین انتقال فرما گئے ہیں انہیں کی پیروی و اطاعت کرنی چاہئے۔ حالانکہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ پیروی کے لائق صحابہ کرام کی جماعت ہے خواہ وہ زندہ ہوں یا اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہوں مردوں کی تخصیص صرف اس لئے کی گئی ہے کہ اکثر صحابہ کرام اس وقت انتقال فرما چکے تھے ورنہ یہاں زندہ اور مردہ دونوں مراد ہیں۔
اس حدیث سے صحابہ کی انتہائی عظمت اور فضل و کمال کا اظہار ہوتا ہے چونکہ تمام مخلوق اور تمام انسانوں میں یہ سب سے افضل تھے اور حق و صداقت کے قبول کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم ان میں موجود تھی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کے لئے منتخب فرمایا اور قرآن میں بایں طور پر ان کے فضل و کمال کی شہادت دی کہ :
آیت ( وَاَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى وَكَانُوْ ا اَحَقَّ بِهَا وَاَهْلَهَا) 48۔ الفتح : 26)
" اور ان (صحابہ) کو پرہیزگاری کی بات پر قائم رکھا اور وہ اس کے مستحق اور اہل تھے۔"
بعض آثار میں آیا ہے کہ پروردگار عالم نے تمام بندوں کے قلوب پر نظر فرمائی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قلب مبارک سب سے زیادہ منوّر و روشن اور پاک و صاف تھا تو نور نبوت اس میں ودیعت فرمایا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قلوب بھی بہت زیادہ پاک و صاف اور اہل و لائق تھے تو ان کو اپنے نبی کی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کے لئے پسند فرمایا۔
اور اتنی بات تو ہم آج خود جانتے ہیں کہ ایک آدمی جب کسی پیر برحق کا مرید ہوتا ہے تو باوجودیکہ وہ پہلے سے بالکل خالی اور کورا ہوتا ہے مگر پیر کی صحبت اور اس کی خدمت و اطاعت گزاری کی وجہ سے وہ کتنا اعلیٰ مقام حاصل کر لیتا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنی زندگیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اور اپنی عمریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں صرف کر دیں اور فضل و کمال حاصل نہ کریں۔