مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان ۔ حدیث 188

کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان

راوی:

وَعَنْ جَابِرِاَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمَا اٰتَی رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم بِنُسْخَۃِ مِنَ التَّوْرَاۃِ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اﷲِ!ھٰذِہٖ نُسْخَۃٌ مِّنَ التَّوْرَاۃِ فَسَکَتَ فَجَعَلَ یَقْرَأُوَوَجْہُ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَتَغَیَّرُ فَقَالَ اَبُوْبَکْرِ رَضِیَ اﷲُ عَنْہ، ثَکِلَتْکَ الثَّوَاکِلُ مَاتَرٰی مَابِوَجْہٖ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَنَظَرَ عُمَرُ اِلٰی وَجْہٖ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ اَعُوْذُ بِاﷲِ مِنْ غَضَبِ اﷲِ وَغَضَبِ رَّسُوْلِہٖ رَضِیْنَا بِاﷲِ رَبًا وَبِالْاِ سْلَامِ دِیْنَا وَبِمُحَمَّدِ نَبِیًّا فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم ((وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدِ بِیَدِہٖ لَوْبَدَاْلَکُمْ مُوْسٰی فَاتَّبَعْتُمُوْہ، وَتَرَکْتُمُوْنِیْ الَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَاءِ لسَّبِیْلِ وَلَوْ کَانَ حَیًّا وَاَدْرَکَ نَبُوَّتِیْ لاَ تَّبَعَنِی))(رواہ الدامی)

" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تورات کا ایک نسخہ لائے اور عرض کیا، یا رسول اللہ ! یہ تورات کا نسخہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (تورات کو) پڑھنا شروع کر دیا۔ ادھر غصہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہونے لگا (یہ دیکھ کر) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا عمر! گم کرنے والیاں تمہیں گم کریں۔ کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ اقدس (کے تغیر) کو نہیں دیکھتے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ منوّر کی طرف نظر ڈالی اور (غصہ کے آثار دیکھ کر کہا) میں اللہ کے غضب اور اس کے رسول کے غصہ سے پناہ مانگتا ہوں۔ ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے اگر موسیٰ (علیہ السلام) تمہارے درمیان ظاہر ہوتے تو تم ان کی پیروی کرتے اور مجھے چھوڑ دیتے (جس کے نتیجہ میں) تم سیدھے راستہ سے بھٹک کر گمراہ ہو جاتے اور (حالانکہ) اگر موسیٰ (علیہ السلام ) زندہ ہوتے اور میرا زمانہ نبوت پاتے تو وہ (بھی) یقینًا میری (ہی) پیروی کرتے۔" (درامی)

تشریح :
جملہ ثکلتک الثواکل (گم کرنے والیاں تمہیں گم کریں) اپنے معنی و مفہوم کے اعتبار سے موت کے لئے بد دعا ہے لیکن یہ ایک اہل عرب کا محاورہ ہے جو اپنے اصل معنی و مفہوم میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ ایسے مواقع پر بولا جاتا ہے جب اپنے کسی بے تکلف دوست سے کسی کو تعجب کا اظہار مقصود ہوتا ہے جیسے کوئی آدمی اپنے بے تکلف مخاطب سے ایسے موقع پر جب کہ وہ کسی ظاہری بات کو بھی نہیں سمجھ رہا ہوتا یہ کہے کہ مجھے بڑا تعجب ہے کہ یہ کھلی ہوئی بات بھی تم نہیں سمجھ رہے ہو۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کتاب و سنت کو چھوڑ کر یہود و نصاری اور حکماء اور فلاسفہ کی کتابوں کی طرف بے ضرورت رجوع کرنا اور ان کی طرف التفات کرنا مناسب نہیں بلکہ یہ گمراہی کی بات ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں