مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 207

علم اور اس کی فضیلت کا بیان

راوی:

عَنْ کَثِیْرِ بْنِ قَیْسِ قَالَ: کُنْتُ جَالِسًا مَعَ اَبِی الدَّرْدَاءِ فِی مَسْجِدِ دِمَشْقَ فَجَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ یَا اٰبَا الدَّرْدَاءِ اِنِّی جِئْتُکَ مِنْ مَدِیْنَۃِ الرَّسُوْلِ صلی اللہ علیہ وسلم (لِحَدِیْثِ بَلَغَنِیْ اَنَّکَ تُحَدِّثَہ، عَنَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم) مَا جِئْتُ لِحَاجَۃِ قَالَ فَاِنِّی سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ مَنْ سَلَکَ طَرِیْقًا یَطْلُبُ فِیْہٖ عِلْمًا سَلَکَ اﷲُ بِہٖ طَرِیْقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّۃِ وَاِنَّ الْمَلَائِکَۃَ لَتَضَعُ اَجْنِحَتَھَا رِضْیً لِّطَالِبِ الْعِلْمِ وَاِنَّ الْعَالِمِ لِیَسْتَغْفِرْ لَہ، مَنْ فِی السَّمٰوٰاتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ وَ الْحِیْتَانُ فِی جَوْفِ الْمَآءِ وَاِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ عَلَی سَآئِرِ الْکَوَاکِبِ وَاِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَہُ الْاَنْبِیَاءَ وَاِنَّ الْاَنْبِیَآءَ لَمْ یُوَرِّثُوْا دِیْنَارَاوَّلَا دِرْھَمًا وَاِنَّمَا وَرَّثُوْا الْعِلْمَ فَمَنْ اَخَذُہ، اَخَذَ بِحَظِّ وَّافِرِرَوَاہُ اَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِّیُ وَاَبُوْدَاؤدَ وَابْنُ مَاجَۃَ وَادَّرِامِیُّ وَسَمَّاہُ التِّرْمِذِیُّ قَیْسَ بْنَ کَثِیْرً۔

" حضرت کثیر ابن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں (ایک صحابی) حضرت ابودردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس دمشق (شام) کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا کہ میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر سے آپ کے پاس ایک حدیث کے لئے آیا ہوں جس کے بارے میں مجھے معلوم ہوا ہے کہ اسے آپ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں ۔ آپ کے پاس میرے آنے کی اس کے علاوہ اور کوئی غرض نہیں ہے ( یہ سن کر) حضرت ابودردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے یہ سنا کہ جو آدمی کسی راستہ کو (خواہ لمبا ہو یا مختصر) علم دین حاصل کرنے کے لئے اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو بہشت کے راستہ پر چلاتا ہے اور فرشتے طالب علم کی رضا مندی کے لئے اپنے پروں کو بچھاتے ہیں اور عالم کے لئے ہر وہ چیز جو آسمانوں کے اندر ہے (یعنی فرشتے) اور جو زمین کے اوپر ہے (یعنی جن وانس) اور مچھلیاں جو پانی کے اندر ہیں دعائے مغفرت کرتی ہیں اور عابد پر عالم کو ایسی ہی فضیلت ہے جیسے کہ چودہویں کا چاند تمام ستاروں پر فضیلت رکھتا ہے اور عالم انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں۔ انیباء وراثت میں دینار و در ہم نہیں چھوڑ گئے ہیں، ان کا ورثہ علم ہے لہٰذا جس نے علم حاصل کیا اس نے کامل حصہ پایا۔ مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ، درامی اور جامع ترمذی نے راوی کا نام قیس ابن کثیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ذکر کیا ہے (لیکن صحیح کثیر بن قیس ہی ہے جیسا کہ صاحب مشکوۃ نے نقل کیا ہے۔"

تشریح :
صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں آنے والے کی علمی طلب اور حصول دین کے حقیقی جذبہ کا اظہار ہوتا ہے کہ اس نے آتے ہی سب سے پہلے یہی کیا تھا کہ آپ کے پاس آنے سے میری غرض کوئی دینوی منفعت یا محض ملاقات نہیں ہے بلکہ میں تو علم دین کے حصول کا حقیقی اور پر خلوص جذبہ لے کر آیا ہوں اور میری خواہش ہے کہ آپ کی زبان سے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس حدیث سن کر اپنے قلب و دماغ کو علوم نبوی کی ایک روشنی سے منور کروں۔
ہو سکتا ہے کہ طالب مذکور نے جس حدیث کے سننے کی طلب کی تھی وہ حدیث انہوں نے اجمالی طور پر سنی ہو اب ان کی خواہش یہ تھی کہ اس کو تفصیلی طور پر سن لیں یا یہ کہ وہ حدیث انہوں نے تفصیل کے ساتھ ہی (کسی دوسرے سے) سن رکھی ہو مگر اس جذبہ کے ساتھ حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ حدیث کو بلا واسطہ صحابی سے سنیں۔
ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سائل کے جواب میں جو حدیث بیان فرمائی ہو سکتا ہے کہ وہ یہی حدیث ہو اور یہی حدیث اس کا مطلوب ہو، لیکن یہ بھی احتمال ہے کہ یہ حدیث جو یہاں نقل کی گئی ہے وہ طالب کا مطلوب نہ ہو بلکہ چونکہ طالب نہایت مشقّت وپریشانی برداشت کر کے اور دور دراز کا سفر طے کر کے طلب علم اور حصول حدیث کی خاطر آیا تھا۔ اس لئے اس کی سعادت و خوش بختی کے اظہار کے طور پر اس کا ثواب بیان کیا اور اس کی مطلوبہ حدیث انہوں نے بیان کی وہ چونکہ اس باب کے مناسب نہیں تھی اس لئے مصنف کتاب نے اسے یہاں نقل نہیں کیا۔
حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جب طالب علم، علم کی خاطر اپنے گھر سے نکلتا ہے اور راہ مسافرت اختیار کرتا ہے تو فرشتے اس کی رضا مندی کے لئے اپنے پر بچھاتے ہیں۔ اس کی تشریح میں کہا جاتا ہے کہ یا تو واقعی طالب علم کے شرف و عزت کی خاطر فرشتے اپنے پر بچھاتے ہیں یا پھر طالب علم کی عظمت اور اس کی طرف رحمت الٰہی کے نزول کے لئے یہ کنا یہ ہے۔
نیز فرمایا گیا ہے کہ آسمانوں اور زمین میں اللہ کی جتنی بھی مخلوق ہے سب کی سب عالم کی مغفرت کے لئے دعا کرتی ہے۔ اس کے بعد پھر صراحت کی گئی کہ پانی کے اندر رہنے والی مچھلیاں بھی اس کے لئے استغفار کرتی ہیں ظاہر ہے کہ زمین کی مخلوق میں مچھلیاں بھی شامل ہیں ان کا بظاہر الگ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی مگر اس میں نکتہ یہ ہے کہ اس سے دراصل عالم کی انتہائی فضیلت و عظمت کا اظہار مقصود ہے اور اس طرف اشارہ ہے کہ پانی کا برسنا جو رحمت الٰہی کی نشانی اور نعمت الہٰی کی علامت ہے اور دنیا کی اکثر آسانیاں و راحتیں جو اسی سے حاصل ہوتی ہیں اور تمام خیر و بھلائی جو اس کے علاوہ ہیں سب کی سب عالم ہی کی برکت سے ہیں یہاں تک کہ مچھلیوں کا پانی کے اندر زندہ رہنا جو خود قدرت الٰہی کی ایک نشانی ہے، علماء ہی کی برکت کی بنا پر ہے۔
اس حدیث میں عالم اور عابد کے فرق کو بھی ظاہر کرتے ہوئے عابد پر عالم کو فوقیت اور برتری دی گئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عالم کا فائدہ متعدی ہے یعنی اس کا فیضان صرف اس کی اپنی ذات تک محدود نہیں ہے اسی لئے عالم اور عابد کو چاند ستاروں سے مشابہت دی گئی ہے کہ جس طرح چودہویں کا چاند جب اپنی پوری تابانی اور جلوہ ریزی کے ساتھ آسمان پر نمودار ہوتا ہے تو دنیا کی تمام مخلوق اس سے مسینر ہوتی ہے اور اس کی روشنی تمام جگہ پہنچتی ہے جس سے دنیا فائدہ اٹھاتی ہے مگر ستارہ خود اپنی جگہ تو روشن و منور ہوتا ہے مگر اس کا فیضان اتنا عام نہیں ہوتا کہ اس کی روشنی تمام جگہ پھیل سکے اور سب کو فائدہ پہنچا سکے۔
اگر کوئی یہ اشکال کر بیٹھے کہ عالم اور عابد میں کوئی فرق نہیں ہوتا کیونکہ اگر کوئی عالم محض علم پر بھروسہ کر بیٹھے اور علم پر نہ عمل کرے تو ظاہر ہے کہ اس کی کوئی فضیلت نہیں ہے۔ اسی طرح عابد بغیر علم کے عابد نہیں ہو سکتا کیونکہ عبادت کی حقیقی اور اصل روح علم ہی میں پوشیدہ ہے اس لئے عبادت بغیر علم کے صحیح طور پر ادا نہیں ہو سکتی ۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ جو عالم بالکل با عمل ہوگا وہی عابد بھی ہوگا اور جو عابد ہوگا وہی عالم با عمل بھی ہوگا۔ اس لئے دونوں میں فرق کیا ہوا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ عالم سے مراد وہ آدمی ہے جو تحصیل علم کے بعد عبادات ضرور یہ مثلاً فرائض واجبات اور سنن و مستحبات پر اکتفا کر کے اپنے اوقات کا بقیہ حصہ درس و تدریس میں مشغول رکھتا ہے یعنی اس کا کام درس و تدریس، دعوت و تبلیغ اور دین کی ترویج و اشاعت ہوتا ہے۔ اور عابد سے مراد وہ آدمی ہے جو تحصیل علم کے بعد اپنی زندگی کا تمام حصہ صرف عبادت ہی عبادت میں صرف کرتا ہے، نہ اسے علم کی اشاعت سے دلچسپی ہوتی ہے اور نہ تعلیم و تعلم اس کا مقصد ہوتا ہے بلکہ وہ ہمہ وقت عبادت ہی میں مشغول رہتا ہے۔
اور ظاہر ہے کہ اگر علم کی اشاعت اور تعلیم و تعلم کی فضیلت کا گہرا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ عمل افادیت کے اعتبار سے سب سے بلند مقام رکھتا ہے اور جو ہر حال میں عبادت پر افضل ہے جیسا کہ اکثر احادیث سے بھی ثابت ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ عالم اور عابد میں اس اعتبار سے فرق ہے اور عابد پر عالم کو فوقیت حاصل ہے۔
شرح السنتہ میں حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول منقول ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ میں آج طالب علم سے افضل کوئی دوسری چیز نہیں جانتا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ کیا لوگوں کے خلوص نیت میں فضیلت نہیں ہے۔ انہوں نے فرمایا طلب علم خود نیت کا سبب ہے یعنی نیت اس سے اپنے آپ ہی سنور جاتی ہے۔
چنانچہ بعض علماء کا قول نقل کیا جاتا ہے کہ انہوں نے کہا ہم نے علم غیر اللہ کے لئے حاصل کیا مگر بعد میں وہ اللہ ہی کے لئے ہوگیا، یعنی ہماری نیت پہلے مخلص اور صاف نہیں تھی مگر جب طلب علم کا حقیقی جذبہ پیدا ہوا اور علم کی روشنی نے قلب کو منور کیا تو نیت مخلص اور صحیح ہوگئی۔
علم کی فضیلت کا اس سے بھی اندازہ ہو سکتا ہے کہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں علم کا طلب کرنا نماز نفل سے افضل ہے کیونکہ وہ علم جسے طلب کیا جارہا ہے یا تو وہ فرض عین ہوگا یا فرض ہوگا یا فرض کفایہ ہوگا اور ظاہر ہے یہ دونوں نفل سے بہر حال افضل ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں