علم اور اس کی فضیلت کا بیان
راوی:
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقِیْہٌ وَاحِدٌ اَشَدُّ عَلَی الشَّیْطَانِ مِنْ اَلْفِ عَابِدِ۔(راوہ الجامع ترمذی وابن ماجۃ)
" اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ایک فقیہ (یعنی عالم دین) شیطان پر ایک ہزار عابدوں سے زیادہ سخت ہے۔" (جامع ترمذی وسنن ابن ماجہ)
تشریح :
مقابلہ کا یہ مسلم اصول ہے کہ کامیابی اس آدمی کے حصہ میں آتی ہے جو اپنے مد مقابل کے داؤ پیچ سے بخوبی واقف ہو اور اس کا توڑ جانتا ہو۔
چنانچہ ہم خود دیکھتے ہیں کہ مقابلہ کے اکھاڑہ میں وہ آدمی جو اپنے ظاہری قویٰ اور جسم کے اعتبار سے کوئی اہمیت نہیں رکھتا اپنے اس مقابل کو پچھاڑ دیتا ہے جو جسم و بدن کے اعتبار سے اس سے کئی گنا زیادہ طاقتور ہوتا ہے کیونکہ وہ جب مقابلہ میں آتا ہے تو اس کا دماغ بنیادی طور پر مقابل کے ہر وار سے بچاؤ کی شکل اور اس کے ہر داؤ کا جواب اپنے خزانہ میں رکھتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کامیابی اسی ہی سے ہوتی ہے۔
دنیا میں باطنی طور پر انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان ہے جو اپنے مکر و فریب کی طاقت سے لوگوں کو گمراہی کی وادی میں پھینکتا رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ لوگ جو شیطان کے مکر و فریب سے واقف نہیں ہوتے اور اس کی طاقت و قوت کا جواب نہیں رکھتے وہ گمراہ ہو جاتے ہیں مگر ایسے لوگ جو اس کے ہر داؤ کا جواب رکھتے ہیں اور اس کی طاقت و قوت کی شہ رگ پر ان کا ہاتھ ہوتا ہے وہ نہ صرف یہ کہ خود اس کی گمراہی سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی محفوظ رکھتے ہیں اور یہ لوگ وہی عالم ہوتے ہیں جن کے قلب و دماغ نور الہٰی کی مقدس روشنی سے منوّر اور ان کے ذہن و فکر علم و معرفت کی طاقت سے بھر پور ہوتے ہیں۔
اسی لئے اس حدیث میں فرمایا جا رہا ہے کہ شیطان کے مقابلہ میں ایک ہزار عابد جتنی طاقت رکھتے ہیں اتنی طاقت تنہا ایک عالم کے پاس ہوتی ہے کیونکہ جب شیطان لوگوں پر اپنے مکر و فریب کا جال ڈالتا ہے اور انہیں خواہشات نفسانی میں پھنسا کر گمراہی کے راستہ پر لگا دینا چاہتا ہے تو عالم اس کی چال سمجھ لیتا ہے چنانچہ وہ لوگوں پر شیطان کی گمراہی کو ظاہر کرتا ہے اور ایسی تدابیر انہیں بتا دیتا ہے جن پر عمل کرنے سے وہ شیطان کے ہر حملے سے محفوظ رہتے ہیں۔
برخلاف اس کے وہ عابد جو صرف عبادت ہی عبادت کرنا جانتا ہے اور علم و معرفت سے کو سوں دور ہوتا ہے وہ تو محض اپنی ریاضت و مجاہدہ اور عبادت میں مشغول رہتا ہے اسے یہ خبر بھی نہیں ہونے پاتی کہ شیطان کس چور دروازے سے اس کی عبادت میں خلل ڈال رہا ہے اور اس کی تمام سعی و کوشش کو ملیا میٹ کر رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ظاہری طور پر وہ عبادت میں مشغول رہتا ہے، مگر لا علم ہونے کی وجہ سے وہ شیطان کے مکر و فریب میں پھنسا ہوا ہوتا ہے اس لئے نہ وہ خود شیطان کی گمراہی سے محفوظ رہتا ہے اور نہ وہ دوسروں کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔