علم اور اس کی فضیلت کا بیان
راوی:
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ الْمِرَاءُ فِی الْقُراٰنِ کُفْرٌ۔ (رواہ ابوداؤد مسند احمد بن حنبل)
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم نے ارشاد فرمایا۔ قرآن میں جھگڑنا کفر ہے۔ " (مسند احمد بن حنبل و سنن ابوداؤد)
تشریح :
ان لوگوں کا دائرہ کفر کے قریب کر دیا گیا ہے جو قرآن کے معنی و مطالب اور مقاصد و مراد کے تعیین میں جھگڑتے رہتے ہیں اور جس کی عقل میں جو آتا ہے اس کو حق اور صحیح سمجھتے ہوئے ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نیز ایسے کم فہم لوگوں کو جب ظاہری طور پر قرآن کی آیتوں میں معنی و مقصد کے لحاظ سے فرق نظر آتا ہے تو وہ ان میں سے ایک آیت کو ناقابل اعتناء و نا قابل قبول اور ناقابل استشہاد قرار دے کر دوسری آیت کو راحج قرار دے دیتے ہیں۔ گویا اس طرح وہ قرآن ہی کی ایک آیت سے دوسری آیت کو ساقط کر دیتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ ایسا کرنا شرعی نقطۂ نظر سے انتہائی جرم ہے بلکہ ایسی شکل میں جبکہ دو آیتوں میں باہم اختلاف و تضاد نظر آئے تو حتی الامکان دونوں میں تطابق اور توافق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر کسی کے لئے یہ ممکن نہ ہو تو اسے یہ اعتقاد کر لینا چاہئے کہ یہ میری کم علمی اور بد فہمی کی بنا پر ہے اور حقیقی مفہوم و مراد کا علم اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف سونپ دے کہ وہی بہتر جاننے والے ہیں۔
مثلاً اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے کہ خیر اور شر سب اللہ ہی کی جانب سے ہے اور وہ اپنے اس عقیدہ کی بنیاد اس آیت پر رکھتے ہیں کہ ارشاد بانی ہے۔
آیت ( قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ ) 4۔ النساء : 78)
" یعنی (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) فرما دیجئے کہ سب کچھ اللہ ہی کی جانب سے ہے۔"
اہل سنت و الجماعت کا یہ عقیدہ اور ان کی دلیل بالکل صحیح اور صاف واضح ہے۔ لیکن اہل قدر اس کی تردید کرتے ہیں اور اس کے برخلاف اپنا عقیدہ یہ قائم کئے ہوئے ہیں کہ خیر کا خالق اللہ ہے اور شر کا خالق اللہ نہیں ہے اور شر کا خالق خود انسان ہے اور اپنے عقیدہ کی بنیاد اس آیت پر رکھتے ہیں جو بظاہر پہلی آیت کے متضاد ہے یعنی ارشاد ربانی ہے۔
آیت (مَا اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ وَمَا اَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ ) 4۔ النساء : 79)
" جو کچھ از قسم نیکی تمہیں پہنچتی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو کچھ از قسم برائی تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے نفس کی جانب سے ہے۔"
بہر حال اس قسم کے اختلافات اور آیتوں میں تضاد پید اکرنا منع ہے بلکہ یہ چاہئے کہ اس قسم کی آیتوں میں ایسی آیت پر عمل کیا جائے جس پر مسلمانوں کا اتفاق و اجماع ہو اور دوسری آیت میں ایسی تاویل کی جائے جو شرع کے مطابق ہو، جیسا کہ انہیں دونوں مذکورہ بالا آیت میں دیکھا جائے کہ پہلی آیت پر مسلمانوں کا اجماع ہے کہ خیر و شر تمام اللہ ہی کی جانب سے ہے اور ہر چیز تقدیر الہٰی کے مطابق ہی ہوتی ہے اس پر عمل کیا جائے۔
اور دوسری آیت کی یہ تاویل کی جائے کہ دراصل اس آیت کا تعلق ما قبل کی آیت سے ہے کہ اس میں منافقین کی برائی اور ان کا عقیدہ بیان کیا جا رہا ہے کہ ان منافقوں کو کیا ہوا ہے جو کہ اس چیز کو جو صحیح اور واضح ہے نہیں سمجھتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ نیکی و بھلائی تو اللہ کی طرف سے ہے اور برائی خود بندہ کے نفس کی جانب سے ہے۔ گویا اس طرح دونوں آیتوں میں تطبیق ہو جائے گی۔ اس طرح دیگر آیتوں میں بھی مطابقت پیدا کی جائے۔