علم اور اس کی فضیلت کا بیان
راوی:
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ رِوَایَۃً یُوْشِکُ اَنْ یَّضْرِبَ النَّاسُ اَکْبَادَ الْاِبِلِ یَطْلُبُونَ الْعِلْمَ فَلَا یَجِدُوْنَ اَحَدًا اَعْلَمَ مِنْ عَالِمِ الْمَدِیْنَۃِ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَفِی جَامِعِہٖ قَالَ ابْنُ عُیَیْنَۃَ اَنَّہ، مَالِکُ بْنُ اَنَسِ و شْلُہ، عَنْ عَبْدِالرَّزَّاقِ وَقَالَ اِسْحٰقُ ابْنُ مُوْسٰی وَسَمِعْتُ ابْنَ عُیَیْنَۃَ اِنَّہُ قَالَ ھُوَ الْعُمَرِیُّ الزَّاھِدُوَاِسْمُہ، عَبْدِالْعَزِیْزِ ابْنُ عَبْدِاﷲِ۔(رواہ الجامع ترمذی)
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایۃً منقول ہے کہ وہ زمانہ قریب ہے جبکہ لوگ علم حاصل کرنے کے لئے اونٹوں کے جگر کو پھاڑ ڈالیں گے لیکن مدینہ کے عالم سے زیادہ بڑا عالم کسی کو نہیں پائیں گے۔ (جامع ترمذی ) اور جامع ترمذی میں ابن عیینہ سے منقول ہے کہ مدینہ کے وہ عالم مالک ابن انس رحمہ اللہ تعالیٰ ہیں اور عبدالرزاق نے بھی یہی لکھا ہے اور اسحٰق ابن موسیٰ کا بیان ہے کہ میں نے ابن عیینہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ مدینہ کا وہ عالم عمری زاہد ہے (یعنی وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان سے ہے جن کا نام عبدالعزیز بن عبداللہ ہے۔" (جامع ترمذی )
تشریح :
" روایۃً منقول" کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً ہی روایت کی ہے۔ لیکن حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ چونکہ یاد نہیں رہے اس لئے انہوں نے اس حدیث کو اس طرح نقل کیا۔
" اونٹوں کے جگر کو پھاڑنے" کا مطلب یہ ہے کہ جب لوگوں کے درمیان علم کا چرچہ پڑھے گا اور حصولِ علم کا شوق افزوں ہوگا تو لوگ دور دراز کا سفر کریں گے اور علم کی خاطر دنیا بھر کی خاک چھانٹتے پھریں گے، یا یہ کہ درِ علم تک جلد پہنچ جانے کے لئے اونٹوں کو تیزی سے چلائیں گے اور تیزگامی کے ساتھ علم کی منزلِ مقصود تک پہنچیں گے۔
حدیث کے الفاظ کے مصداق میں کلام ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ مدینہ کے عالم سے زیادہ کوئی بڑا عالم نہیں ملے گا تو مدینہ کے عالم سے کون مراد ہے؟
حضرت سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ تعالیٰ جو حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ کے اصحاب اور حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے شیوخ میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے مراد حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ محترم ہے۔ اسی طرح حضرت عبدالرزاق رحمہ اللہ تعالیٰ جو حدیث کے جلیل القدر اور مشہور امام ہیں یہی فرماتے ہیں کہ حدیث میں جس " عالم مدینہ" کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ ہی ہیں۔
لیکن حضرت ابن عیینہ کے ایک شاگرد حضرت اسحٰق بن موسیٰ فرماتے ہیں میں نے حضرت ابن عیینہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ " عالم مدینہ سے مراد حضرت عمری زاہد ہیں۔" جن کا اسم گرامی عبدالعزیز بن عبداللہ ہے۔ چونکہ یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ہیں اس لئے عمریٰ کہا جاتا ہے اور " زاہد" ان کی صفت ہے اس لئے کہ یہ اپنے زمانہ میں مدینہ کے ایک جلیل القدر عالم ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے پائے کے زاہد و متفی آدمی تھے ان کا نسب اس طرح ہے۔ عبدالعزیز بن عبداللہ بن عمرو بن حفص بن عاصم بن عمر فاروق۔
بہر حال امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ نے یحییٰ کے واسطہ سے ابن عیینہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا جو قول نقل کیا ہے وہ اس قول کے مخالف ہے جو ابن عیینہ سے اسحٰق بن موسیٰ نقل کرتے ہیں اس طرح حضرت ابن عیینہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے اقوال میں اختلاف ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں حضرات نے عیینہ سے جو قول نقل کیا ہے، وہ بااعتبار ظن کے ہے یقینی اور حتمی طور پر ان لوگوں نے نقل نہیں کیا ہے۔
یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین رحمہ اللہ تعالیٰ کے دور کے اعتبار سے ہے کہ ان کے زمانوں میں مدینہ کے عالم سے زیادہ بڑا عالم کسی دوسری جگہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تابعین کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے بعد جب علم کی مقدّس روشنی مدینہ سے نکل کر اطراف عالم میں پھیلی تو اس کے نتیجہ میں دیگر ممالک اور دوسرے شہروں میں ایسے ایسے عالم و فاضل پیدا ہوئے جو اپنے علم و فضل اور دینی فہم و فراست کے اعتبار سے مدینہ کے عالموں سے بڑھے ہوئے تھے۔
اس حدیث کے ظاہری معنی جو ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ قریب اور انسب ہیں یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد اس ارشاد سے اس بات کی خبر دینا ہے کہ آخر زمانہ میں علم اپنی وسعت و فراخی کے باوجود صرف مدینہ منورہ میں منحصر ہو جائے گا جیسا کہ دیگر احادیث سے یہ بات بصراحت معلوم ہوتی ہے۔ وا اللہ اعلم۔