علم اور اس کی فضیلت کا بیان
راوی:
وَعَنْہُ فِیْمَا اَعْلَمُ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِنَّ اﷲَ عَزَّوَ جَلَّ یَبْعَثُ لِھٰذِہِ الْاُمَّۃِ عَلَی رَأْسِ کُلِّ مِائَۃِ سَنَۃِ مَنْ یُّجَدِّدُلَھَا دِیْنَھَا۔ (رواہ ابوداؤد)
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مجھے جو کچھ معلوم ہے وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس امت کے نفع کے واسطے ہر سو برس پر ایک آدمی کو بھیجتا ہے جو اس کے دین کو تازہ کرتا ہے۔" (سنن ابوداؤد)
تشریح :
اکثر علماء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس حدیث سے یہ مفہوم مراد لیا ہے کہ ہر زمانہ میں امت کے اندر اپنے علم و فضل کے اعتبار سے سب میں ممتاز ایک ایسا آدمی موجود ہوتا ہے جو دین کو نکھارتا اور تجدید کرتا ہے جسے مجدّد کہا جاتا ہے۔ مجدّد اپنے زمانہ میں دین کے اندر ہر پیدا ہونے والی برائی اور خرابی کو دور کرتا ہے۔ بدعت اور رسم و رواج کے جو گہرے پردے دین کی حقیقت پر پڑ جاتے ہیں وہ اپنے علم و معرفت کی قوّت سے انہیں چاک کرتا ہے اور امت کے سامنے پورے دین کو نکھار کر اور صاف و ستھرا کر کے اس کی اپنی شکل میں پیش کر دیتا ہے۔
چنانچہ بعض حضرات نے تعین بھی کیا ہے کہ فلاں مجدّد پیدا ہوا تھا اور فلاں صدی میں فلاں مجدّد موجود تھا۔ بعض علماء نے حدیث کے معنی کو عمومیت پر محمول کیا ہے، یعنی خواہ دین کی تجدید کرنے والا کوئی ایک آدمی واحد ہو خواہ کوئی جماعت ہو جو دین میں پیدا کی گئی برائیوں اور خرابیوں کو ختم کرے۔