علم اور اس کی فضیلت کا بیان
راوی:
وَعَنْ عَبْداﷲِ بْنِ عَمْرِو اَنَّ رَسُْولَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم مَرَّ بِمَجْلِسَیْنِ فِی مَسْجِدِہٖ فَقَالَ کِلَا ھُمَا عَلَی خَیْرِ وَاَحَدُھُمَا اَفْضَلُ مِنْ صَاحِبِہٖ اَمَّا ھٰؤُلَآءِ فَیَدْعُوْنَ اﷲَ وَیَرْغَبُوْنَ اِلَیْہٖ فَاِنْ شَآءِ اَعْطَاھُمْ وَاِنْ شَآءَ مَنَعَھُمْ وَاَمَّا ھٰؤُلَآءِ فَیَتَعَلَّمُوْنَ الْفِقْہَ اَوِالْعِلْمَ وَیُعَلِّمُوْنَ الْجَاھِلَ فَھُمْ اَفْضَلُ وَاِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلَّمًا ثُمَّ جَلَسَ فِیْھِمْ۔ (رواہ لدارمی)
" اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر دو مجلسوں پر ہوا، جو مسجد نبوی میں منعقد تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ دونوں بھلائی پر ہیں لیکن ان میں سے ایک (نیکی میں) دوسرے سے بہتر ہے۔ ایک جماعت عبادت میں مصروف ہے، اللہ سے دعا کر رہی ہے اور اس سے اپنی رغبت کا اظہار کر رہی ہے (یعنی حصول مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف امید ہے اور حصول مقصد خواہش الہٰی پر موقوف ہے ) لہٰذا اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو انہیں دے اور اگر چاہے نہ دے اور دوسری جماعت فقہ یا علم حاصل کر رہی ہے اور جاہلوں کو علم سکھا رہی ہے، چنانچہ یہ لوگ بہتر ہیں اور میں بھی معلّم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ان میں بیٹھ گئے۔" (دارمی)
تشریح :
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ صحابہ کی دو جماعتیں الگ الگ بیٹھی ہوئی ہیں ایک جماعت تو ذکر و دعا میں مشغول تھی اور دوسری جماعت مذاکرہ علم میں مشغول تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں سے اس جماعت کو بہتر قرار دیا جو مذاکرہ علم میں مشغول تھی اور پھر نہ صرف یہ کہ زبان ہی سے ان کی فضیلت کا اظہار فرمایا بلکہ خود بھی اس جماعت میں بیٹھ کر علماء کی مجلس کو مزید عزّت و شرف کی دولت بخشی۔
علم اور عالموں کی اس سے زیادہ اور کیا فضیلت ہو سکتی ہے کہ سردار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے عابدوں کی مجلس کو چھوڑ کر عالموں ہی کی ہم نشینی اختیار فرمائی ہے اور اپنے آپ کو ان ہی میں سے شمار کیا
گدایان را ازیں معنی خبر نیست
کہ سلطان جہاں باما ست امروز