علم اور اس کی فضیلت کا بیان
راوی:
وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ مَسْعُوْدِقَالَ لَوْ اَنَّ اَھْلَ الْعِلْمِ صَانُوْا الْعِلْمَ وَوَضَعُوْہ، عِنْدَاَھْلِہٖ لَسَادُوْابِہٖ اَھْلَ زَمَانِھِمْ وَلَکِنَّھُمْ بِذَلُوْہ، لِاَ ھْلِ الدُّنْیَا لِیَنَا لُوْابِہٖ مِنْ دُنْیَا ھُمْ فَھَا نُوْا عَلَیْھِمْ سَمِعْتُ نَبِیَّکُمْ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ مَنْ جَعَلَ الْھُمُوْمَ ھَمًّا وَاحِدًا ھَمَّا اٰخِرَتِہٖ کَفَاہُ اﷲُ ھَمَّ دُنْیَاہُ وَمَنْ تَشَعَّبَتْ بِہٖ الْھُمُوْمُ (فِی) اَحْوَالِ الدُّنْیَا لَمْ یُبَالِ اﷲُ فِی اَیْ اَوْدِیَتِھَا ھَلَکَ رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ وَرَوَاہُ الْبَیْھِقِیُّ فِی شُعَبِ الْاِیْمَانِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ مِنْ قَوْلِہٖ مَنْ جَعَلَ الْھُمُوْمَ اِلٰی اٰخِرِہٖ۔
" اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا اگر اہل علم (یعنی علماء) علم کی حفاظت کریں اور علم کو اس کے اہل ہی (یعنی قدر دانوں) کے سامنے رکھیں تو وہ بے شک اپنے علم کے سبب دنیا والوں کے سردار بن جائیں لیکن (علماء) نے اگر ایسا نہیں کیا بلکہ انہوں نے علم کو دنیا داروں پر خرچ کیا تاکہ اس کے ذریعہ وہ دنیا (یعنی جاہ و جلال) کو حاصل کریں اور علم کا حقیقی مقصد یعنی دنیا والوں کی ہدایت و نصیحت کو موقوف کر دیں تو وہ دنیا والوں کی نظر میں ذلیل ہوئے۔ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس آدمی نے اپنے مقاصد میں سے صرف ایک مقصد یعنی آخرت کے مقصد کو اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے دنیاوی مقصد کو پورا کر دیتا ہے جس آدمی کے مقاصد پراگندہ ہوں جیسے کہ دنیا کے حالات ہیں تو پھر اللہ کو پرواہ نہیں ہوتی کہ وہ خواہ کسی جنگل (یعنی دنیا کی کسی حالت) میں ہلاک ہو۔ (ابن ماجہ، بیہقی نے اس حدیث کو شعب الایمان میں عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قول " من جعل الھموم" سے آخر تک روایت کیا ہے۔"
تشریح :
یہ حدیث علماء کو احساس و شعور کی ایک دولت بخش رہی ہے اور علم کے سب سے اعلیٰ و بلند مقام کی نشاندہی کر رہی ہے چنانچہ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ علماء اپنا مرتبہ و مقام پہچانیں اور وہ جس عرفانی مقام پر فائز ہیں اس کی اہمیت و نزاکت کا احساس کریں۔ اس لئے کہ علم دین جن بلند و اعلیٰ احساسات کا حامل ہے اسی طرح وہ اپنا ظرف بھی بلند و اعلیٰ چاہتا ہے۔ علم کی شان عظمت ہی یہ ہے کہ وہ قدر دانوں اور باشعور اشخاص کے پاس رہے۔ اگر حصول جاہ و جلال کی خاطر علم کو دنیا دار سرداروں اور ظالموں کی چوکھٹ کا سجدہ ریز بنایا جاتا ہے تو یہ علم کی سب سے بڑی توہین اور عالم کی سب سے بڑی ذلت ہے۔
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک بات اس سے بڑی فرما رہے ہیں ۔ وہ کہتے کہ دنیاوی اعتبار سے سرداری، شوکت و حشمت اور عزت و عظمت کوئی بڑی چیز نہیں ہے بلکہ اصل اور حققیی سرداری و امارت تو وہ ہے جو فضل و کمال اور بزرگی کے اعتبار سے ہو یہی وجہ ہے کہ علماء کی یہ شان نہیں ہوا کرتی کہ وہ بادشاہ و امیر بنیں یا حاکم و سردار ہوں، وہ تو علم و فضل اور بزرگی کی طاقت سے دنیا کے روحانی تاجدار ہوتے ہیں اور لوگوں کے دل و دماغ پر حکمران ہوتے ہیں اور ان کے ماسواء ان کے زیر قدم، زیر قلم اور ان کی عقل و احکام کے تابع دار ہوتے ہیں جیسا کہ قرآن شاہد ہے :
آیت ( يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ )۔ (58۔ المجادلۃ : 11)
" یعنی اللہ تعالیٰ تم میں سے ان کے جو ایمان لائے اور جن کو علم دیا گیا درجات بلند کرتا ہے۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ بندہ کا احساس اور اس کا شعور اتنا پاکیزہ اور لطیف ہو جانا چاہئے کہ اس کے دل و دماغ کے ایک ایک گوشہ میں صرف ایک ہی مقصد کی روشنی ہو اور وہ مقصد آخرت ہے۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی مقصد نہ ہو اور کوئی غرض نہ ہو تو پھر اللہ کی جانب سے اس پر دنیاوی وسعت کے دروازے بھی خود بخود کھول دیئے جاتے ہیں۔
لیکن بندہ کا دل و دماغ اگر اتنا پر اگندہ ہو کہ وہ ہمہ وقت دنیا کی چیزوں میں تو لگا رہے اور دنیا کے تفکرات میں مستغرق رہے تو اللہ کی جانب سے اس کے ساتھ کوئی اچھا معاملہ نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اللہ اس سے اتنا بے تعلق ہو جاتا ہے کہ اگر وہ بندہ دنیا کی کسی تکلیف اور کسی بھی مصیبت میں ہلاک ہو جائے تو اللہ کو اس کی پرواہ نہیں ہوتی اور نہ دنیاوی اعتبار سے اور نہ دینی اعتبار سے رحمت الٰہی کی نظر کرم اس کی طرف ہوتی ہے۔ اس طرح وہ دنیا و آخرت دونوں جگہ کے خسران و نقصان میں مبتلا ہو جاتا ہے۔