مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 252

علم اور اس کی فضیلت کا بیان

راوی:

وَعَنِ الْاَ عْمَشِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ اٰفَۃُ الْعُلْمِ النِّسْیَانُ وَاِضَاعَتُہ، اَنْ تُحَدِّیْثَ بِہٖ غَیْرَ اَھْلِہٖ رَوَاہُ الدَّارِمِیُّ مُرْسَلًا۔

" اور حضرت اعمش رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا علم کی آفت بھولنا ہے اور علم کا ضائع کرنا یہ ہے کہ اس کو نا اہل کے سامنے بیان کیا جائے۔" (دارمی نے بطریق ارسال کیا )

تشریح :
علم کے حاصل ہونے سے پہلے تو بہت آفات اور مصیبتیں ہوتی ہیں لکل چیز آفۃ والعلم اٰفات یعنی ہر چیز کی ایک ہی آفت ہوتی ہے مگر علم کے لئے بہت سے آفات ہیں لیکن حصول علم کے بعد ایک ہی آفت ہے اور وہ نسیان یعنی بھولنا ہے اور یقینا کسی چیز کا حاصل ہوجانے کے بعد زائل ہو جانا اور ذہن میں آکر پھر محو ہو جانا زبردست روحانی اذیت ہے۔
دراصل اس حدیث سے اس پر تنبیہ مقصدود ہے کہ طالب علم اور اہل علم کو چاہئے کہ وہ ایسی باتوں سے اجتناب کریں جو نسیان کا سبب ہیں یعنی گناہ و معصیت سے بچیں اور ان چیزوں میں دل نہ لگائیں جو ذہن و فکر کو غافل کر دیتی ہیں جیسے دنیا کی سحر آفرینیوں اور خواہشات نفسانی میں دلچسپی لینا چنانچہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اسی مضمون کو اس شعر میں ادا کیا ہے
شکوت الی وکیع سوء حفظی
فاوصانی الی ترک المعاصی
ترجمہ : " میں نے اپنے استاد وکیع سے اپنے حافظہ کی کمزروی کی شکایت کی تو انہوں نے مجھے ترک معصیت کی نصیحت کی۔"
فان العلم فضل من الٰہ
وفضل اللہ لا یعطی لعاص
ترجمہ : " کیونکہ علم تو اللہ کا ایک فضل ہے اور اللہ کا فضل گناہ گار کے حصہ میں نہیں آتا۔"
آخر حدیث میں یہ فرمایا گیا ہے کہ علم کو اس کے نااہل اور ناقدردان کے سامنے پیش کرنا دراصل علم کو ضائع کرنا ہے اور نا اہل وہ آدمی ہے جو نہ تو علم کو سمجھتا ہے اور نہ علم کی قدر جانتا ہے لہٰذا جب اس کے سامنے علم پیش کیا جائے گا تو علم ضائع ہوگا۔ اس لئے علم انھی کو سکھانا چاہئے جو اس کے اہل اور قدردان ہوں، یعنی وہ علم سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں اور اس پر عمل کرنے کا جذبہ بھی ان کے اندر موجود ہو۔

یہ حدیث شیئر کریں