مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 254

علم اور اس کی فضیلت کا بیان

راوی:

وَعَنِ الْاَحْوَصِ بْنِ حَکِیْمِ عَنْ اَبِیْہٖ قَالَ سَأَلُ رَجُلٌ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم عَنِ الشَّرِّ فَقَالَ لَا تَسْئَلَوْنِی عَنِ الشَّرِّوَسَلُوْنِی عَنِ الْخَیْرَ یَقُوْلُھَا ثَلَاثُا ثُمَّ قَالَ اَلَا اِنَّ شَرَّ الشَّرِّ شِّرَارُ الْعُلَمَآءِ وَاِنَّ خَیْرَ الْخَیْرِ خِیَارُالْعُلَمَآئِ۔ (رواہ الدارمی)

" اور حضرت احوض بن حکیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے " برائی" کے بارے میں سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ سے برائی کے بارے میں مت پوچھو بلکہ بھلائی کے بارے میں سوال کرو۔ اور ان جملوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار ادا فرمایا۔ خبردار ! بد لوگوں میں بد ترین برے عالم ہیں اور بھلے لوگوں میں سب سے بہتر بھلے علماء ہیں۔ " (دارمی)

تشریح :
صحابی کے سوال کا مقصد یا تو نفسِ برائی کے بارے میں دریافت کرنا تھا جیسا کہ ترجمہ سے معلوم ہوا یا وہ یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ بد ترین آدمی کون ہےَ اور جواب کو دیکھتے ہوئے یہی مقصد زیادہ واضح ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کے سوال سے منع فرمایا: اور وجہ اس کی ظاہر ہے کہ چونکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سراپاءِ رحمت اور سراپاءِ خیر ہے اس لئے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محض بدی اور برائی کا سوال کیا جاتا ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برائی اور بھلائی دونوں کے بارے میں جواب دے کر اسی طرف اشارہ فرمایا۔
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ علماء کی ذات چونکہ عوام کے اندر ایک معیار اور نمونہ ہوتی ہے اور لوگ ان کے تابع و معتقد ہوتے ہیں لہٰذا عالم کی ہر صفت اس کی اپنی ذات تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس کے اثرات تک بھی پہنچتے ہیں، عالم اگر نیک اخلاق و عادات اور اچھے خصائل کا ہوتا ہے تو اس کے ماننے والے اور اس کی اتباع کرنے والے بھی نیک اخلاق و عادات کے مالک ہوتے ہیں اور خدانخواستہ بد اخلاق، بد کردار ہو جائے تو پھر اس کے جراثیم دوسرے تک پہنچتے ہیں اور اس کے ماننے والے بھی اسی کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں