مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ پاکی کا بیان ۔ حدیث 294

وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان

راوی:

وَعَنْ سُوَےْدِ بْنِ النُّعْمَانِ ص اَنَّہُ خَرَجَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَامَ خَےْبَرَ حَتّٰی اِذَا کَانُوْا بِالصَّہْبَآءِ وَھِیَ اَدْنٰی خَےْبَرَ صَلَّی الْعَصْرَ ثُمَّ دَعَا بِالاَْزْوَادِ فَلَمْ ےُؤْتَ اِلَّا بِالسَّوِےْقِ فَاَمَرَ بِہٖ فَثُرٍّیَ فَاَکَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاَکَلْنَا ثُمَّ قَامَ اِلَی الْمَغْرِبِ فَمَضْمَضَ وَمَضْمَضْنَا ثُمَّ صَلّٰی وَلَمْ ےَتَوَضَّأْ۔ (صحیح البخاری)

" اور حضرت سوید بن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( اسم گرامی حضرت سوید ابن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے آپ کا شمار اہل مدینہ میں ہے۔) راوی ہیں کہ وہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ خیبر ( کے فتح) کے سال سفر پر گئے جب صہباء کے مقام پر پہنچے جو خیبر کے نزدیک ہے، عصر کی نماز پڑھی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توشہ (زاد راہ) منگوایا، چنانچہ ستو کے علاوہ کچھ نہ تھا جو حاضر کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اس کو گھولا گیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور ہم نے اس کو کھایا اور پھر مغرب کی نماز کے لئے کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلی کی اور ہم نے بھی کلی کی اور وضو نہیں کیا۔" (صحیح البخاری)

تشریح :
اس حدیث نے اس مسئلہ کی وضاحت کر دی کہ آگ سے پکی ہوئی چیز کو کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا، اس لئے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ستو کھایا جو آگ ہی سے تیار کیا جاتا ہے اور اس کے بعد صرف کلی کر کے مغرب کی نماز پڑھ لی اور وضو نہیں کیا۔

یہ حدیث شیئر کریں