وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان
راوی:
وَعَنْ طَلْقِ بِنْ عَلِیِّ قَالَ سُئِلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ مَسِّ الرَّجُلِ ذَکَرَہ، بَعْدَ مَایَتَوَضَّأُ قَالَ وَھَلْ ھَوَ اِلَّا بُضْعَۃٌ مِنْہُ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَالتِرْمِذِیُّ وَالنِّسَائِیُ وَ رَوَی ابْنُ مَاجَۃَ نَحْوَہُ وَقَالَ الشَّیْخُ الْاِمَامُ مُحِیُّ السُّنَۃِ ھٰذَا مَنْسُوْخٌ لِاَنَّ اَبَاھُرَیْرَۃَ اَسْلَمَ بَعْدَ قُدُوْمِ طَلْقِ وَقَدْرَوَی اَبُوْھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالِ اِذَا اَفْضَی اَحَدُکُمْ بِیَدِہٖ اِلَی ذَکَرِہٖ لَیْسَ بَیْنَہ، وَبَیْنَھَا شَیْیءٌ فَلْیَتَوَضَّأْ۔ (رَوَاہُ الشَّافِعِیُ وَالدَّارَ قُطْنِیُّ وَرَوَاہُ النَّسَائِیُّ عَنْ بُسْرَۃَ اِلَّا اَنَّہُ لَمْ یَذْکُرْ لَیْسَ بَیْنَہ، وَبَیْنَھَا شَیْی ئً )
" اور حضرت طلق بن علی المرتضیٰ ) اسم گرامی طلق بن علی اور کنیت ابوعلی ہے ان کی حدیثیں ان کے بیٹے قیس سے مروی ہیں۔ (فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ وضو کرنے کے بعد اگر کوئی آدمی اپنے ذکر کو چھوئے (تو کیا حکم ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " وہ بھی تو آدمی کے گوشت کا ایک ٹکڑا ہے ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے" امام محی السنۃ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث منسوخ ہے اس لئے کہ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت طلق بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آنے کے بعد اسلام لائے ہیں اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث منقول ہے کہ جب تم میں سے کسی کا ہاتھ اپنے ذکر پر پہنچ جائے اور ہاتھ و ذکر کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو تو اس کو چاہئے وضو کرے۔" (شافع دار قطنی اور سنن نسائی نے بسرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے یہ روایت نقل کی ہے جس میں لَیْسَ بَیْنَہ، وَبَیْنَھَا شَیْیئٌ کے الفاظ مذکور ہیں۔
تشریح :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح بدن کے گوشت کے دیگر ٹکڑے مثلاً ہاتھ پاؤں کان ناک وغیرہ ہیں اسی طرح ذکر بھی بندہ کے گوشت ہی کا ایک ٹکڑا ہے اور جب ان دوسرے ٹکڑوں اور حصوں کو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا تو پھر ذکر کے چھو جانے سے کیوں وضو ٹوٹے گا لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ مس ذکر ناقص وضو نہیں ہے۔
امام محی السنہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول در اصل حضرات شوافع کی ترجمانی ہے اس کا مطب یہ ہے کہ حضرت ابوہریرۃ و طلق بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بہت بعد اسلام لائے ہیں، کیونکہ حضرت طلق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہجرت کے فورًا بعد جب کہ مسجد نبوی کی تعمیر ہو رہی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سن ٧ھ میں غزوہ خبیر کے موقع پر اسلام لائے ہیں اس لئے حضرت طلق بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سننا پہلے ہوا اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سننا بعد میں ہوا ہوگا، لہٰذا حضرت طلق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث منسوخ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث ناسخ ہوئی۔
حنفیہ جواب دیتے ہیں کہ حضرت طلق کے اسلام لانے کے بعد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث سنی بھی بعد میں ہو شوافعہ کا یہ دعویٰ تو جب صحیح ہو سکتا ہے کہ یہ بھی ثابت ہو کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے سے پہلے ہی حضرت طلق رضی اللہ تعالیٰ عنہ انتقال فرما چکے تھے یا یہ کہ اپنے وطن کو چلے گئے تھے کہ پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی کبھی حاضر نہیں ہوئے، اس لئے کہ اگر حضرت طلق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے سے پہلے انتقال فرما جاتے ہیں یا اپنے وطن کو واپس لوٹ جاتے تو پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے کے بعد کچھ نہیں سن سکتے تھے مگر اب تو یہ ممکن ہے کہ حضرت طلق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے کے بعد ہی سنی ہو لہٰذا شوافع کا یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔
حضرت مظہر نے ایک اچھی اور فیصلہ کن بات کہہ دی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں حدیثوں میں تعارض ہو گیا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ حدیث سے تو ثابت ہو رہا ہے کہ مس ذکر ناقض وضو ہے اور حضرت طلق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث مس ذکر کو ناقض وضو نہیں کہتی لہٰذا اس تعارض کی شکل میں ہمیں چاہئے کہ ہم دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال کی طرف رجوع کریں چنانچہ بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مثلاً حضرت علی، حضرت عبداللہ ابن مسعود، حضرت ابودرداء حضرت حذیفہ اور حضرت عمر فاروق رضوان اللہ علیہم اجمعین کے یہ اقوال ثابت ہیں کہ ذکر چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا اس لئے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ حنفیہ ہی کا مسلک صحیح ہے کہ مس ذکر ناقض وضو نہیں ہے، واللہ اعلم بالصواب۔