وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان
راوی:
وَعَنِ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمَا کَانَ یَقُوْلُ قُبْلَۃُ الرَّجُلِ امْرَاٰتَہ، وَجسُّھَا بِیَدِہٖ مِنَ الْمُلَامَسَۃِ وَمَنْ قَبَّلَ امْرَاَتَہ، اَوْجَسَھَا بِیَدِہٖ فَعَلَیْہِ الْوُضُوْئُ۔(رواہ موطا امام مالک والشافعی)
" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں مروی ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ " مرد کا اپنی عورت سے بوسہ لینا یا اس کو اپنے ہاتھ سے چھونا یہ بھی ملامست ہے اور جس آدمی نے اپنی عورت کا بوسہ لیا یا اس کو ہاتھ سے چھوا تو اس پر وضو واجب ہے۔" (مالک، شافعی)
تشریح :
قرآن مجید میں جس جگہ ان چیزوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جو وضو کو توڑنے والی ہیں انہیں ایک چیز ناقض وضو یہ بھی بتائی گئی ہے کہ :
اَوْلَمَسْتُمُ النِّسَآئَ۔ " یعنی تم عورت سے ملامست کرو۔"
" ملامست" کا حقیقی مفہوم کیا ہے؟ اور اس کا محل کیا ہے؟ اسی میں اختلاف ہو رہا ہے، امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ تو یہ فرماتے ہیں کہ ملامست کے معنی عورت کو ہاتھ لگانا ہے، تو گویا اس طرح امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عورت کو محض ہاتھ لگانے کے بعد اگر کسی آدمی کا وضو ہے تو وہ ٹوٹ جائے گا لہٰذا اگر وہ نماز پڑھنا چاہے تو اس کو دوبارہ وضو کرنا ضروری ہوگا۔
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مذکورہ بالا ارشاد کا مفہوم بھی یہی ہے جو حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کی تصدیق کر رہا ہے چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہی فرما رہے ہیں کہ عورت کو صرف ہاتھ لگانا، یا عورت کا بوسہ لینا ملامست میں داخل ہے جس کو قرآن میں ناقض وضو فرمایا گیا ہے۔
ہمارے امام صاحب " ملامست" کے معنی قرار دیتے ہیں " جماع اور ہمبستری" یعنی قرآن میں ملامست عورت کا جو ذکر کیا گیا ہے اور جسے ناقض و جو کہا گیا ہے اس سے جماع اور ہمبستری مراد ہے۔ امام اعظم نے اپنے اس مسلک کی تصدیق میں دلائل کا ایک ذخیرہ جمع کر دیا ہے جو فقہ کی کتابوں میں بڑی وضاحت کے ساتھ مذکور ہے۔