وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان
راوی:
وَعَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِیْزِ عَنْ تَمِیْمِ الدَّارِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ الْوُضُوْءُ مِنْ کُلِّ دَمِّ سَائِلِ رَوَاھُمَا الدَّارَ قُطْنِیْ وَقَالَ عُمَرَ بْنُ عَبْدِالْعَزِیْزِ لَمْ یَسْمَعْ مِنْ تَمِیْمِ الدَّارِیِّ وَلَارَآہُ وَیَزِیِدُ بْنُ خَالِدِ وَیَزِیْدُ بْنُ مُحَمَّدِ مَجْھُوْلَانِ۔
" حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ (امیر المومنین حضرت عمر ابن عبدالعزیز اموی رحمۃ اللہ علیہ ایک مشہور خلیفہ ہیں اور رجب ١٠١ھ میں اس جہاں فانی سے رحلت فرما گئے۔) تمیم داری ( اسم گرامی تمیم بن اوس الداری ہے ٩ھ میں مشرف با اسلام ہوئے ہیں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد شام میں ان کی وفات ہوئی۔) سے روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر بہنے والے خون سے وضو لازم آتا ہے کہ ان دونوں روایتوں کو دارقطنی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ حضرت عمر ابن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے نہ تو تمیم داری سے سنا ہے اور نہ ہی انہیں دیکھا ہے نیز اس روایت کے دو راوی یزید ابن خالد اور یزید ابن محمد مجہول ہیں۔"
تشریح :
حضرت امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہی مسلک ہے کہ ہر بہنے والے خون سے وضو لازم آتا ہے یعنی اگر بدن کے کسی بھی حصہ سے خون نکلا اور نکل کر اس حصہ تک بہہ گیا جس کا دھونا وضو اور غسل میں ضروری ہوتا ہے تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا چنانچہ یہ حدیث امام صاحب کے مسلک کی دلیل ہے، امام صاحب کے علاوہ دیگر ائمہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر خون، پیشاب یا پاخانہ کے راستہ سے نکلے تو وضو ٹوٹ جائے گا اس کے علاوہ کسی دوسری جگہ سے نکلا تو نہیں ٹوٹے گا۔
حضرت دار قطنی اس حدیث میں کلام فرما رہے ہیں، ان کا کہنا یہ ہے کہ حضرت عمر ابن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے نہ تو تمیم داری سے سنا ہے اور نہ انہیں دیکھا ہے اس لئے حدیث مرسل ہے، نیز اس حدیث کے دو راوی یزید بن خالد اور یزید بن محمد کے مجہول میں گویا ان کا مقصد اس کلام سے یہ ہے کہ جس حدیث میں یہ کلام ہو اس کو امام صاحب کا اپنے مسلک کی دلیل بنانا کوئی وزنی بات نہیں ہے۔
ہم اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ حدیث مرسل نہ صرف یہ کہ ہمارے ہی نزدیک بلکہ جمہور علماء کے نزدیک بھی دلیل اور حجت بن سکتی ہے اسی طرح یزید ابن خالد اور یزید بن محمد کے مجہول ہونے میں بھی اختلاف ہے بعض حضرات نے تو انہیں مجھول قرار دیا ہے جیسا کہ دارقطنی فرما رہے ہیں مگر بعض حضرات نے انہیں مجہول نہیں کہا ہے اس سے قطع نظر امام صاحب کی اصل دلیل تو یہ حدیث ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے :
مَنْ قَاءَ اَوْرَعُفُ اَوْ اَمْذَی فِی صَلٰوتِہ فَلْیَنْصَرِفْ وَلْیَتَوَضَّأ وَلْیَبْنِ عَلَی صَلٰوتِہ مَالَمْ یَتَکَلَّمْ۔ (کذافی الھدایہ)
" اگر کسی آدمی نے اپنی نماز میں قے کی یا اس کی نکسیر پھوٹی یا مذی نکلی تو اس کو چاہئے کہ وہ نماز سے نکل کر آئے اور پھر وضو کرے اور جب تک کہ کلام نہ کرے اسی نماز پر بناء کرے۔"
نیز ابوداؤد میں بھی اس مضمون کی حدیث منقول ہے لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ پیشاب اور پاخانہ کے مقام کے علاوہ بدن کے کسی دوسرے حصہ سے بھی خون نکلے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔