پاخانہ کے آداب کا بیان
راوی:
وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَ کَانَتْ یَدُ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ الْیُمْنَی لِطُھُوْرِہٖ وَطَعَامِہٖ وَ کَانَتْ یَدُہُ الْیُسْرٰی لِخَلَائِہٖ وَمَا کَانَ مِنْ اَذًی۔(رواہ ابوداؤد)
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا داہنا دست مبارک وضو کرنے اور کھانے کے لئے تھا اور بایاں ہاتھ استنجاء اور ہر مکروہ کام کے استعمال کے لئے تھا۔" (ابوداؤد)
تشریح :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں ہاتھ سے وضو کرتے تھے اور اس سے کھانا بھی کھاتے نیز جتنے اچھے کام ہیں سب دائیں ہاتھ سے انجام دیتے تھے مثلاً یہ، صدقہ و خیرات کرنا یا دوسری چیزیں لینا دینا وغیرہ وغیرہ اور بائیں ہاتھ کو استنجاء کرنے یا ایسی چیزوں کی انجام دہی میں استعمال فرماتے جو مکروہ ہوتیں یعنی ایسی چیزیں جو طبعاً مکروہ ہوں، جیسے ناک سنکنی یا ایسے ہی دوسری چیزیں جنہیں نفس مکروہ سمجھتا ہو۔
اس حدیث سے ظاہری طور پر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ وضو وغیرہ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناک میں پانی دائیں ہاتھ سے دیتے ہوں گے اور ناک بائیں ہاتھ سے صاف کرتے ہوں گے، مگر۔ افسوس کہ جس طرح آج کے دور میں عقل و دین سے بیگانہ لوگوں نے دوسری اسلامی چیزوں کو ترک کر دیا اور دینی آداب کو فیشن پرستی کے بھینٹ چڑھا دیا ہے اسی طرح اس معاملہ میں بھی اکثر لوگ بالکل برعکس عمل اختیار کئے ہوئے ہیں مثلاً آج کل یہ بہت بڑا مرض عام طور پر لوگوں میں سرایت کر چکا ہے کہ کتاب تو لوگ بائیں ہاتھ میں رکھتے ہیں اور اپنے جوتے دائیں ہاتھ میں اٹھاتے ہیں اب اس کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ یا تو ایسے لوگ آداب شریعت سے قطعاً نا واقف ہوتے ہیں یا پھر نفس کی گمراہی میں پھنس کر غفلت اختیار کئے ہوئے ہیں۔