نماز ایمان میں داخل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وماکان اللہ لیضیع ایمانکم کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں ہے کہ تمہارا ایمان (یعنی نمازیں) جو تم نے بیت المقدس کی طرف پڑھی تھیں ضائع کر دے ( اس آیت میں نماز کو ایمان فرمایا گیا ہے)
راوی: عمروبن خالد , زہیر , ابواسحق , براءبن عازب
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ قَالَ أَخْبَرَنَا زُهَيْرٌ قَالَ أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ عَنْ الْبَرَائِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ أَوَّلَ مَا قَدِمَ الْمَدِينَةَ نَزَلَ عَلَی أَجْدَادِهِ أَوْ قَالَ أَخْوَالِهِ مِنْ الْأَنْصَارِ وَأَنَّهُ صَلَّی قِبَلَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا أَوْ سَبْعَةَ عَشَرَ شَهْرًا وَکَانَ يُعْجِبُهُ أَنْ تَکُونَ قِبْلَتُهُ قِبَلَ الْبَيْتِ وَأَنَّهُ صَلَّی أَوَّلَ صَلَاةٍ صَلَّاهَا صَلَاةَ الْعَصْرِ وَصَلَّی مَعَهُ قَوْمٌ فَخَرَجَ رَجُلٌ مِمَّنْ صَلَّی مَعَهُ فَمَرَّ عَلَی أَهْلِ مَسْجِدٍ وَهُمْ رَاکِعُونَ فَقَالَ أَشْهَدُ بِاللَّهِ لَقَدْ صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِبَلَ مَکَّةَ فَدَارُوا کَمَا هُمْ قِبَلَ الْبَيْتِ وَکَانَتْ الْيَهُودُ قَدْ أَعْجَبَهُمْ إِذْ کَانَ يُصَلِّي قِبَلَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَأَهْلُ الْکِتَابِ فَلَمَّا وَلَّی وَجْهَهُ قِبَلَ الْبَيْتِ أَنْکَرُوا ذَلِکَ قَالَ زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ عَنْ الْبَرَائِ فِي حَدِيثِهِ هَذَا أَنَّهُ مَاتَ عَلَی الْقِبْلَةِ قَبْلَ أَنْ تُحَوَّلَ رِجَالٌ وَقُتِلُوا فَلَمْ نَدْرِ مَا نَقُولُ فِيهِمْ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی وَمَا کَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَکُمْ
عمروبن خالد، زہیر، ابواسحاق ، براء بن عازب سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (جب ہجرت کرکے) مدینہ تشریف لائے تو پہلے اپنے ننہال میں، جو انصار تھے، ان کے ہاں اترے اور آپ نے (مدینہ کے بعد) سولہ مہینے یا سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی، مگر آپ کو یہ اچھا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کا قبلہ کعبہ کی طرف ہو جائے ( چنانچہ ہوگیا) اور سب سے پہلی نماز جو آپ نے (کعبہ کی طرف) پڑھی عصر کی نماز تھی اور آپ کے ہمراہ کچھ لوگ نماز میں تھے ان میں سے ایک شخص نکلا اور کسی مسجد کے لوگوں پر اس کا گذر ہوا اور وہ (بیت المقدس کی طرف) نماز پڑھ رہے تھے، تو اس نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کو گواہ کرکے کہتا ہوں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مکہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی ہے (یہ سنتے ہی) وہ لوگ جس حالت میں تھے، اسی حالت میں کعبہ کی طرف گھوم گئے اور جب آپ بیت المقدس کی طرف نماز پڑہتے تھے، یہود اور جملہ اہل کتاب بہت خوش تھے، مگر جب آپ نے اپنا منہ کعبہ کی طرف پھیر لیا تو یہ ان کو ناگوار ہوا، زہیر (جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں) کہتے ہیں کہ ہم سے ابواسحاق نے براء سے اس حدیث میں یہ نقل کیا کہ تحویل قبلہ سے پہلے اسی قدیم قبلہ پر کچھ لوگ مر چکے تھے، ہم یہ نہ سمجھ سکے کہ ان کے متعلق کیا خیال کیا جائے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت (وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِ يُضِيْعَ اِيْمَانَكُمْ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ) 2۔ بقرۃ، آیت نمبر143) نازل فرمائی۔
Narrated Al-Bara' (bin 'Azib): When the Prophet came to Medina, he stayed first with his grandfathers or maternal uncles from Ansar. He offered his prayers facing Baitul-Maqdis (Jerusalem) for sixteen or seventeen months, but he wished that he could pray facing the Ka'ba (at Mecca). The first prayer which he offered facing the Ka'ba was the 'Asr prayer in the company of some people. Then one of those who had offered that prayer with him came out and passed by some people in a mosque who were bowing during their prayers (facing Jerusalem). He said addressing them, "By Allah, I testify that I have prayed with Allah's Apostle facing Mecca (Ka'ba).' Hearing that, those people changed their direction towards the Ka'ba immediately. Jews and the people of the scriptures used to be pleased to see the Prophet facing Jerusalem in prayers but when he changed his direction towards the Ka'ba, during the prayers, they disapproved of it.
Al-Bara' added, "Before we changed our direction towards the Ka'ba (Mecca) in prayers, some Muslims had died or had been killed and we did not know what to say about them (regarding their prayers.) Allah then revealed: And Allah would never make your faith (prayers) to be lost (i.e. the prayers of those Muslims were valid).' " (2:143).