مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ پاکی کا بیان ۔ حدیث 330

پاخانہ کے آداب کا بیان

راوی:

وَعَنْ رَوَ یْفِعِ بِنْ ثَابِتِ قَالَ قَالَ لِی رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ یَا رَوَیْفَعُ لَعَلَ الْحَیَاۃَ سَتَطُوْلُ بِکَ بَعْدِی فَاَخْبِرِ النَّاسِ اَنَّ مَنْ عَقَدَلِحْیَتَہ، اَوْ تَقَلَّدَ وَتَرًا اَوِ اسْتَنْجٰی بِرَ جِیْعِ دَآبَّۃِ اَوْ عَظْمِ فَاِنَّ مُحَمَّدًا مِنْہُ بَرِیْیئٌ۔ (رواہ ابوداؤد)

" اور حضرت رویفع بن ثابت (رویفع بن ثابت بن سکن بن عدی بن حارثہ بنی مالک نجار سے ہیں ان کا شمار اہل مصر میں ہے۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " اے رویفع! شاید میرے بعد تمہاری زندگی دراز ہو، لہٰذا تم لوگوں کو خبردار کرنا کہ جس آدمی نے اپنی ڈاڑھی میں گرہ لگائی یا (گلے میں) تانت کا ہار ڈالا یا جانور کی نجاست (لید اور گوبر وغیرہ) اور ہڈی سے استنجاء کیا تو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اس سے بیزار ہیں۔" (ابوداؤد)

تشریح :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت رویفع کو اس انداز سے مخاطب کرنے کا یہ معنی ہیں کہ شاید میرے انتقال کی بعد تمہاری زندگی دراز ہو اور تم دوسرے لوگوں کو گناہ کرتے اور رسوم جاہلیت میں انہیں مبتلا دیکھو تو ان باتوں سے انہیں خبردار کر دینا " ڈاڑھی میں گرہ لگانے " کے کئی معنی ہیں، چنانچہ اکثر علماء یہ لکھتے ہیں کہ ڈاڑھی میں گرہ لگانا یہ ہے کہ کوئی آدمی تدابیر اور تکلّف اختیار کر کے مثلاً گرہ وغیرہ لگا کر ڈاڑھی کے بالوں کو گھنگر یالے بنائے چنانچہ ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے، اس سے سنت کی مخالفت لازم آتی ہے اس لئے کے ڈاڑھی کے بالوں کو سیدھا چھوڑنا سنت ہے۔
بعض علماء کرام نے اس کے معنی یہ لکھے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگوں کو یہ عادت تھی کہ جنگ کے وقت اپنی ڈاڑھی کے بالوں میں گرہ دے لیتے تھے چنانچہ اس سے منع فرمایا گیا ہے کیونکہ اس سے عورتوں کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے۔
کچھ علماء کرام نے اس کے معنی یہ لکھے ہیں کہ اہل عجم کی بھی عادت تھی کہ وہ اپنی ڈاڑھی میں گرہ لگا لیتے تھے اس لئے اس سے منع فرمایا کیونکہ اس سے خلقت الہٰی میں تغیر لازم آتا ہے۔ (و اللہ اعلم)
لفظ وتر کے بھی کئی معنی ہیں، یا تو اس کے معنی دورے کے ہیں جس میں زمانہ جاہلیت کے لوگ دفع نظر اور آفات نظر سے محافظت کی خاطر تعویز اور گنڈے وغیرہ باندھ کر بچوں اور گھوڑوں کے گلوں میں ڈال دیتے تھے، اس منع فرمایا گیا ہے، بعض علماء نے لکھا ہے کہ اس سے ڈورے مراد ہیں جن میں کفار گھنٹی اور گھنگر و بادندہ کر لٹکاتے تھے یا اس سے کمان کے وہ چلے مراد ہیں جو گھوڑے کے گلے میں ڈالے جاتے ہیں تاکہ نظر نہ لگے، بہر حال، ان تمام رسموں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کیونکہ اس سے کافروں کی مشابہت ہوتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کی مشابہت سے بیزار ہوتے ہیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب کفار کی ایسی چھوٹی چھوٹی رسمیں اختیار کرنا گناہ کبیرہ میں شامل نہیں ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیزاری و ناراضگی کا سبب ہے، تو کفر کی وہ بڑی بڑی رسمیں جن میں بد قسمتی سے آج مسلمان مبتلا ہیں اور جن کا شمار بھی کبیرہ گناہوں میں ہوتا ہے ان سے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنی زیادہ نفرت ہوگی اور ان رسموں کے کرنے والوں کا اللہ کے یہاں کیا انجام ہوگا؟

یہ حدیث شیئر کریں