پاخانہ کے آداب کا بیان
راوی:
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ مَنِ اکْتَحَلَ فَلْیُوْتِرْ مَنْ فَعَلَ فَقَدْ اَحْسَنَ وَمَنْ لَّا ک فَلَا حَرَجَ وَمَنِ اسْتَجْمَرَ فَلْیُوْتِرْ مَنْ فَعَلَ فَقَدْاَحْسَنَ وَمَنْ لَّا فَلَا حَرَجَ وَمَنْ اَکَلَ فَمَا تَخَلَّلَ فَلْیَلْفَظْ وَمَالَا ک بِلِسَانِہٖ فَلْیَبْتَلِعْ مَنْ فَعَلَ فَقَدْ اَحْسَنَ وَمَنْ لَا فَلَا حَرَجَ وَمَنْ اَتَی الْغَائِطَ فَلْیَسْتَتِرْ فَاِنْ لَّمْ یَجِدْ اِلَّا اَنْ یَجْمَعَ کَثِیْبًا مِنْ رَمَلِ فَلْیَسْتَدْبِرْہ، فَاِنَّ الشَّیْطَانَ یَلْعَبُ بِمَقَاعِدِ بَنِی اٰدَمَ مَنْ فَعَلَ فَقَدْ اَحْسَنَ وَمَنْ لَا فَلَا حَرَجَ۔(رواہ ابوداؤدوابن ماجۃ والدارمی)
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو آدمی سرمہ لگائے تو اسے چاہئے کہ طاق سلائیاں لگائے جس نے ایسا کیا (یعنی طاق سلائیاں لگائیں) اچھا کیا اور جس نے ایسا نہ کیا تو کچھ گناہ نہیں! اور جو آدمی استنجاء کرے تو اسے چاہئے کہ طاق ڈھیلے استعمال کرے ( یعنی تین پانچ یا سات) جس نے ایسا کیا اچھا کیا اور جس نے ایسا نہ کیا کچھا گناہ نہیں! اور جو آدمی کچھ کھائے جو چیز خلال میں نکلے تو اسے چاہئے کہ پھینک دے اور جو چیز زبان سے نکلے تو اسے چاہئے کہ نگل لے، جس نے ایسا کیا اچھا کیا اور جس نے ایسا نہ کیا کچھ گناہ نہیں اور جو آدمی پاخانہ کے لئے جائے تو اسے چاہئے کہ پردہ کرے، اگر کوئی چیز پردہ کی نہ ملے تو (کم از کم) ریت کو جمع کر کے اس کا تودہ اپنے پیچھے کر لے اس لئے کہ شیطان بنی آدم (انسان) کے پاخانہ کے مقام پر کھیلتا ہے جس نے ایسا کیا اچھا کیا، اور جس نے ایسا نہ کیا کوئی گناہ نہیں" ۔" (ابوداؤد، ابن ماجہ، دارمی)
تشریح :
طاق سلائیوں سے سرمہ لگانے کا مطلب یہ ہے کہ تین سلائی ایک آنکھ میں لگائے، زیادہ بہتر یہی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی ایسا ہی معمول منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک سرمہ دانی تھی اس میں سے آپ سرمہ اس طرح لگاتے تھے کہ تین سلائی ایک آنکھ میں لگاتے اور تین سلائی دوسری آنکھ میں لگاتے۔
بعضوں نے یہ طریقہ بتایا ہے کہ تین سلائیاں دائیں آنکھ میں لگائے اور دو سلائیاں بائیں آنکھ میں لگائے، نیز کچھ حضرات نے کہا ہے کہ پہلے دوسلائیاں دائیں آنکھ میں لگائے اور دو سلائیاں بائیں آنکھ میں لگائے اور اس کے بعد پھر ایک سلائی دائیں آنکھ میں لگائے تاکہ ابتدا بھی دائیں آنکھ سے ہو اور اختتام بھی دائیں ہی آنکھ پر ہو، جو آدمی طاق سلائی لگائے گا اس کے لئے بہتر اور اچھا ہوگا، اور جو آدمی طاق سلائی نہ لگائے گا اس میں کوئی حرج اور گناہ بھی نہیں ہے کیونکہ طاق سلائی لگانا مستحب ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طاق ڈھیلوں سے استنجاء کرنے کے بارے میں جو یہ فرمایا ہے کہ " جس نے ایسا کیا اچھا کیا اور جس نہ ایسا نہ کیا تو کوئی گناہ نہیں، اس سے حنفیہ کے مسلک کی تائید ہوتی ہے کہ تین یا طاق ڈھیلے لینے واجب نہیں ہیں اس سے کم اور زیادہ بھی لئے جا سکتے ہیں البتہ طاق ڈھیلے لینا مستحب ہے، کھانا کھانے کے بعد خلال سے نکالی ہوئی چیز کو منہ سے پھینک دینے کو بہتر قرار دیا جا رہا ہے اور زبان سے نکالی ہوئی چیز کو نگل لینے کے لئے کہا جا رہا ہے اس لئے کہ تنکے سے خلال کرنے میں اکثر خون بھی نکل آتا ہے اس لئے احتیاطاً اس کو بھینک دینا ہی بہتر ہے زبان سے چونکہ خون نکلنے کا احتمال نہیں ہوتا اس لئے اس کو نگل لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مگر اتنی بات سمجھ لینی چاہئے کہ اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جو فرمایا کہ" جس نے ایسا نہ کیا کوئی گناہ نہیں" تو یہ حکم اسی صورت میں ہوگا جب کہ خون نکلنے کا یقین نہ ہو بلکہ احتمال ہو اگر خون نکلنے کا یقین ہو تو پھر خلال میں ہر طرح کی نکلی ہوئی چیز کا نگلنا حرام ہوا، اس کا پھینک دینا واجب ہوگا۔
آخر حدیث میں فرمایا ہے کہ جب کوئی آدمی پاخانہ کے لئے جائے تو پاخانہ کے وقت اسے پردہ کر کے بیٹھنا چاہئے یعنی ایسی جگہ بیٹھے جہاں لوگ نہ دیکھ سکیں اگر پردہ کے لئے کچھ نہ پائے بایں طور کے نہ تو ایسی جگہ ہے جو گھری ہوئی اور لوگوں کی نظروں سے محفوظ ہو اور نہ اپنے پاس ایسا کوئی کپڑا یا یا کوئی دوسری چیز ہے جس سے پردہ کیا جا سکے تو اس وقت یہ کرنا چاہئے کہ ریت کا تودہ جمع کر لے اور اس کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھ جائے اس طرح کسی نہ کسی حد تک پردہ ہو جائے گا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو آدمی پاخانہ کے وقت پردہ کا لحاظ نہیں کرتا تو شیطان اس کے پاخانہ کے مقام سے کھیلتا ہے کھیلنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے اور انہیں اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ اس آدمی کے ستر کو دیکھیں جو بے پردہ بیٹھا ہوا پاخانہ کر رہا ہے، نیز یہ کہ اگر پردہ نہ کیا جائے تو اس کا بھی خطرہ رہتا ہے کہ جب ہوا چلے تو اس کی وجہ سے ناپاک چھینیٹں اڑ کر بدن اور کپڑے پر پڑیں گی اس لئے پاخانہ کے وقت پردہ کا ہونا نہایت ضروری ہے۔
اس کے بارہ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی پردہ کا لحاظ کرے تو یہ اچھا ہے اور اگر نہ کرے تو کوئی گناہ کی بات بھی نہیں ہے مگر احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ پردہ کا خیال رکھا جائے بلکہ اگر اس بات کا یقین ہو کہ پردہ نہ کیا گیا تو لوگ دیکھیں گے تو ایسی شکل میں پردہ کرنا لازم اور ضروری ہے، اگر پردہ نہ کرے تو گناہ گار ہوگا۔
اگر بحالت مجبوری کوئی آدمی بغیر پردہ کے پاخانہ کے لئے بیٹھ جائے تو پھر اس کی ستر کی طرف قصدا دیکھنے والوں کو گناہ ہوگا، مجبوری سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایسا موقع آپڑے جب کہ پردہ کا کوئی انتظام ممکن نہ ہو اور اس کو شدید حاجت ہو تو اس صورت میں اسے مجبوری ہے۔ ریت کے تودہ کو پشت کی طرف کرنے کو اس لئے فرمایا گیا ہے کہ آگے کے ستر کو تو دامن وغیرہ سے بھی چھپایا جا سکتا ہے بخلاف پیچھے کے ستر کے کہ اس کو چھپانا ذرا مشکل ہوتا ہے۔