پاخانہ کے آداب کا بیان
راوی:
وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ مُغَفَّلِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ لَا یَبُوْلَنَّ اَحَدُ کُمْ فِی مُسْتَحَمِّہٖ ثُمَّ یَغْتَسِلُ فِیْہِ اَوْیَتَوَضَّأُ فِیْہِ فَاِنََّ عَامَۃَ الْوَسْوَاسِ مِنْہُ رَوَاہُ اَبُوْدُاؤدَ وَالتِّرْمِذِیُّ وَالنِّسَائِیُّ اِلَّا اَنَّھُمَا لَمْ یَذْکُرَا ثُمَّ یَغْتَسِلُ فِیْہَ اَوْیَتَوَضَّأُ فِیْہٖ۔
" اور حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ (حضرت عبداللہ بن مغفل کی کنیت ابوسعید ہے پہلے مدینہ میں سکونت اختیار فرمائی پھر آپ بصرہ چلے گئے آپ کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بصرہ میں مسائل دین کی تعلیم دینے کے لئے بھیجا تھا آپ کی وفات بمقام بصرہ ٥٩ھ میں ہوئی۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی آدمی اپنے غسل خانے میں پیشاب نہ کرے جس میں پھر وہ نہائے یا وضو کرے (یعنی یہ عقل سے بعید ہے کہ نہانے کی جگہ پیشاب کرے اور پھر وہیں نہائے یا وضو کرے) اس لئے کہ اس سے اکثر وساوس پیدا ہوتے ہیں" (ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی ) جامع ترمذی اور سنن نسائی نے ثم یغتسل فیہ او یتوضا فیہ کہ الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں۔"
تشریح :
غسل خانہ میں پیشاب کرنے سے وساوس اس لئے پیدا ہوتے ہیں کہ جب وہاں پیشاب کیا جاتا ہے تو وہ جگہ ناپاک ہو جاتی ہے اور پھر وضو یا غسل کے وقت جب اس پر پانی پڑتا ہے تو دل میں وسو سے پیدا ہوتے ہیں کہ کہیں چھینیٹں تو نہیں پڑ رہے ہیں اور پھر یہ شبہ رفتہ رفتہ دل میں جم جاتا ہے جس سے ایک مستقل خلجان واقع ہو جاتا ہے۔
ہاں اگر غسل خانہ کی زمین ایسی ہو کہ اس پر سے چھینیٹں اچھل کر اوپر نہ پڑتی ہوں مثلاً وہاں کی زمین ریتلی ہو اس کا فرش اور اس میں نالی ایسی ہو کہ پیشاب کا ایک قطرہ بھی وہاں نہ رکتا ہو سب نکل جاتا ہو تو پھر وہاں پیشاب کرنا مکروہ نہیں ہے۔
اتنی بات سمجھ لینی چاہئے کہ یہاں غسل خانہ میں پیشاب کرنے کو جو منع کیا گیا ہے تو نہی تنزیہی ہے نہی تحر یمی نہیں ہے۔